کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 40
زیادہ موقف پائے جاتے ہیں ۔بعض علما کا قول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ سرے سے کسی نے پڑھی ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین گروہ درگروہ حجرہ مبارک میں داخل ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعا کرکے واپس پلٹ آتے تھے۔ پھر ان علما نے آپ کی مسنون نمازِ جنازہ نہ پڑھنے کی دوعلتیں بیان کی ہیں :
1۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت و عظمت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ نہ ادا کی گئی ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (نمازِ جنازہ) کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن یہ قول درست نہیں ،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا گیا ،جب کہ آپ غسل کے عمل سےبھی مستغنی تھے۔ چنانچہ جب آپ کے جسد ِاطہر کو دیگرفوت شدگان کی طرح غسل دیا گیا تو نمازِ جنازہ پڑھنے میں بھی چنداں حرج نہ تھا۔
2۔بعض علما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ کا اس لئے اہتمام نہ ہوسکا کیونکہ اس وقت کوئی امام نہ تھا۔یہ قول بھی باطل ہے، کیونکہ فرض نمازوں کی امامت کی ادائیگی معطل نہ ہوئی تھی اور ابوبکر صدیق آپ کی تدفین سے قبل ہی خلیفہ نامزد ہوچکے تھے۔‘‘ [1]
شرح نووی میں بعض علما کا بیان کردہ یہ موقف کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ پڑھی ہی نہیں گئی، تاریخی طور پر ثابت نہیں ہے،بلکہ صحيح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسنون نمازِ جنازہ کا اہتمام کیا گیا تھا اور محض رسمی دعا پرہی اکتفا نہ ہوا تھا جیسا کہ درج ذیل حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے ،ابو عسیب رضی الہ عنہ یا ابو عسیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أنه شهد الصلاة علی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قالوا: کیف نصلی علیه؟ قالوا: ادخلوا أرسالا أرسالا قال: فکانوا یدخلون من هذا الباب فیصلون علیه، ثم یخرجون من الباب الآخر [2]
’’وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ِجنازہ میں حاضر ہوئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ (باجماعت یا منفرد) کیسے پڑھیں ؟ اس پر صحابہ کرام نے (باہمی
[1] المنہاج شرح صحیح مسلم از امام نووی: /367
[2] مسنداحمد:5/18، الطبقات الکبریٰ لابن سعد:2/289