کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 4
ڈیوس کو قونصلیٹ کا ملازم قرار دیا۔
3. قونصلیٹ میں تعینات کسی بھی عہدیدار کے لیےبھی Vienna Convention on Diplomatic Relations 1961 لاگو نہیں ہوتا۔ جبکہ قونصلیٹ میں کام کرنے والے اہلکاروں کے لیے Vienna Convention on Consulor Relation 1963لاگو ہوتا ہے جس کے آرٹیکل (1)41 کے تحت قونصلیٹ کے کسی بھی رکن کو قتل جیسے سنگین جرائم پر استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔
4. یہ صورتِ حال واضح ہونے کے بعد واقعے کے تیسرے روز امریکی سفارت خانے نے باقاعدہ پریس ریلیز کے ذریعہ یہ ’وضاحت‘ کی کہ ریمنڈ ’دراصل‘ اسلام آباد کی امریکی ایمبیسی میں تعینات تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ بیان اس لیے جاری کیا گیا کہ کس طریقے سے ریمنڈ کے کیس پر1961ء کا سفارتی تعلقات کا ویانا کنونشن نافذ ہو۔ دوسری طرف محترم شاہ محمود قریشی نے تصدیق کردی کہ واقعے کے اگلے روز 28/جنوری 2011ء کو امریکی سفارت خانے نے حکومت ِپاکستان کو باقاعدہ خط میں ریمنڈ کا نام سفارت خانے کے ملازمین میں شامل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا کہا جس سے جھوٹ کا بھانڈا پھوٹ گیا ۔ کیونکہ25 جنوری کو جاری کی جانے والی فہرست میں ریمنڈ کا نام شامل نہیں تھا۔
5. ریمنڈ کے بیان، امریکی اہلکاروں کی تصدیق کہ ریمنڈ قونصلیٹ کارکن ہے او رجناب شاہ محمود قریشی کے انکشافات نے یہ واضح کردیا کہ ریمنڈ پر Vienna Convention 1963لاگو ہوگا او راسے اسی کنونشن کے آرٹیکل (1)41 کے تحت استثنیٰ حاصل نہیں ہے،کیونکہ اس کا جرم سنگین نوعیت کا ہے۔
6. اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ Vienna Convention on Diplomatic Relation 1961کو ریمنڈ کو مکمل سفارتی استثنیٰ کے حوالے سے نافذ کیا جائے تاکہ امریکا خوش ہوجائے تواس معاملہ میں اس کنونشن کا آرٹیکل (1)10 اہم ہے۔ اس آرٹیکل کی روشنی میں سفارتکار بھیجنے والے ملک کا یہ استحقاق ہے کہ وہ اپنے کسی اہلکار کے لیے خصوصی استثنیٰ کا مطالبہ کرے مگر یہ بھی