کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 37
اہل تاویل اوراہل تفویض کا اُخروی معاملہ تو ہم اس کے بارے کوئی کلام نہیں کرتے،کیونکہ یہ معاملہ جنتی اور جہنمی ہونے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے کسی فرشتہ مقرب اور نبی مرسل کو بھی اس کا اختیار نہیں دیا۔ہم ظاہر کے مطابق کسی عقیدہ یا فقہ کے مسلک کو صحیح یا غلط،راجح یا مرجوح تو کہہ سکتے ہیں ۔اسکے آگے ہمیں حق نہیں ہے۔واللہ اعلم بالصواب!
اہل سنت (ائمہ اربعہ وغیرہ) یا سلفی قرآنِ کریم کو لفظاً ومعنیٰ اللہ کی کلام کہتے ہیں ، اس طرح احادیث قرآن کریم کی تشریح وتفسیرہیں (جنہیں مرادِ الٰہی بھی کہا جا سکتا ہے) لہٰذا اسماء وصفاتِ الٰہی کے مسئلہ میں ان کو تعبیر کی پریشانی نہیں ہے۔وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کی صفاتِ ذاتیہ (نفس، ید، ساق وغیرہ) کو لفظاً اور معنیً بلا تعطیل و تکییف مانتے ہیں بلکہ دوسرے اسماء وصفات کو بھی اسی طرح بلا تاویل تسلیم کرتے ہیں ۔ان کے بالمقابل اہل تاویل کا موقف یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ اہل تاویل (جہمیہ، معتزلہ، اشعریہ، ماتریدیہ) قرآنِ کریم کے لیے اللہ تعالیٰ کی کلامِ لفظی ہونے کے قائل نہیں ہیں ۔اگرچہ جہمیہ اور معتزلہ تو خلق قرآن کے قائل ہیں جب کہ اشعریہ اور ماتریدیہ صراحۃً تو قرآن کو مخلوق نہیں کہتے بلکہ اسے کلامِ نفسی کہتے ہیں ۔تاہم قرآنِ کریم کے الفاظ( سب اہل تاویل کے نزدیک) اللہ تعالیٰ کی کلامِ لفظی نہ ہونے کی بنا پر، اس میں وارد اسماء وصفاتِ الٰہی کے بارے میں الفاظ کی حد تک، مسئلہ میں کوئی زیادہ فرق نہیں رہ جاتا۔
دوسری طرف احادیث کےاخبارِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہونے کی بنا پر ان میں الفاظ کی بجائے اصل مفہوم ہی ہوتا ہے۔گویا کتاب وسنت میں وارد الفاظ کے اطلاقات کا مسئلہ تو اہمیت کھوبیٹھا۔اب مسئلہ صرف مفہوم کا رہ گیا ہے۔جہمیہ تو اسماء ا لٰہی (متکلم، سمیع، بصیر) کے منکر ہیں اور معتزلہ اسماء الٰہی کے الفاظ کی بجائے ان کے مفاہیم کی تاویل کر کے اُنہیں مجاز کی بحث میں لے گئے ہیں ۔البتہ صفاتِ الٰہی (کلام، سمع، بصر) کے معتزلہ منکر ہیں ،لیکن اشعریہ اور ماتریدیہ صفاتِ الٰہی (کلام، سمع، بصر) کا صراحۃً انکار تو نہیں کرتے تاہم مفہوم کی وہ بھی تاویل کر کے اسے مجاز ہی قرار دیتے ہیں ۔گویا متکلمین کی تعبیرات متنوع ہیں جن کی تفصیلات کا یہ موقع نہیں ۔ہم نے بہت اختصار سے ایک خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ (محدث)