کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 35
ہر کسی کا مجاز اپنا ہو گا جیسا کہ اہل تاویل کا اللہ کی صفات کے معانی بیان کرنے میں کبھی بھی اتفاق نہ ہو سکا۔ یعنی جہمیہ،معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ سب صفات کی تاویل کرتے ہیں لیکن ان کی تاویلات بھی باہم مختلف ہوتی ہے اور کسی ایک تاویل پران کا اتفاق نہیں ہے جبکہ دوسری طرف ائمہ اربعہ حقیقی معنی مراد لیتے ہیں لہٰذا ان میں اتفاق ہے۔ 18.دوسری بات یہ ہے کہ ائمہ اربعہ کے نزدیک اس لفظ کا حقیقی معنی [یعنی ہاتھ]مراد نہ لینا بھی صحیح منہج نہیں ہے جسے تفویض کہتے ہیں ۔ تفویض سے یہ لازم آتا ہے کہ کلام مخاطب کو سمجھانے کے لیے نہ کی جائے اور جو کلام مخاطب کو سمجھ نہ آئے اسے فصیح اور بلیغ کلام نہیں کہتے۔یعنی صفات میں تفویض کا عقیدہ مان لینے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب کوئی ہم سے یہ پوچھے کہ﴿ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ﴾یا ﴿بَلْ يَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ﴾ یا ﴿لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾وغیرہ جیسی قرآنی آیات کے کیا معنی ہیں ؟ تو ہم یہ جواب دیں کہ ان آیات کا معنی اللہ ہی کو معلوم ہے، ہمیں اس کا علم نہیں ہے۔اگر کلام کا معنی ہی واضح نہ ہو تو وہ کلام فصیح وبلیغ کیسے کہلائے گا؟ اللہ کی ذات اس سے بہت منزہ ہے کہ ایسا مبہم کلام کرے جو مخاطب کو سمجھ ہی نہ آئے ۔ بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتے ہیں : ﴿ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ﴾ (یوسف : ۲) ’’بلاشبہ ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا ہے تاکہ تم اسے سمجھو۔‘‘ 19.تفویض کے خلاف یہ دلیل بھی کافی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ’ید‘ کا لفظ استعمال کیاتو اگرچہ اس کی کنہ ہمیں معلوم نہ بھی ہو لیکن یہ تو معلوم ہے کہ ’ید‘ سے مراد پاؤں ،آنکھیں ،چہرہ،ذات وغیرہ نہیں ہوتی ۔ گویا آپ نے ’ید‘ کے معانی سے ایک لمبی چوڑی فہرست کو جب خارج کر دیا تو ’ید‘کا کچھ معنی تواز خود متعین ہو گیا۔ یعنی اگر مفوضہ سے یہ کہا جائے کہ کیا صفتِ ’ید‘ سے مراد صفت ِ’عین‘ ہو سکتی ہے تو ان کا جواب کیا ہو گا؟ پس ’ید‘ کی حقیقت معلوم ہے اور اس سے مراد مجاز نہیں ہے جبکہ اس حقیقت کی کیفیت معلوم نہیں ہے۔ اہل تاویل اور اہل تفویض نے سلفیہ پر یہ جو اعتراض کیا ہے کہ صفات کا حقیقی معنی مراد لینے سے تجسیم لازم آتی ہے تو یہ اعتراض نہایت ہی بودا ہے۔اہل تاویل کے لیے تو اس اعتراض