کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 33
’’یحییٰ بن یحییٰ سے روایت ہے کہ ہم حضرت انس بن مالک رحمہ اللہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اوراس نے سوال کیا: اے عبد اللہ! اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور یہ استواء کس طرح کا ہے؟ [راوی کہتے ہیں کہ] امام مالک رحمہ اللہ نےاپنا سر جھکایا یہاں تک کہ اُنہیں غصے سے پسینہ آ گیا۔ پھر اُنہوں نے کہا:استوا مجہول نہیں ہے [یعنی معلوم ہے] اور اس کی کیفیت غیر معقول ہے اور اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور اس کے بارے سوال کرنا بدعت ہے۔ اور میرا گمان یہ ہے کہ تو [یعنی سائل] بدعتی ہے ۔اور امام مالک رحمہ اللہ نے اس سائل کو اپنی مجلس سے نکالنے کا حکم دیا۔‘‘ بنیادی مصادر کی کئی ایک کتب میں امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول کئی اسناد کے ساتھ مروی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا عقیدہ امام شافعی رحمہ اللہ کا عقیدہ بھی صفات کے بارے وہی ہے جو امام مالک رحمہ اللہ کا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : القول في السنة التي أنا علیها، ورأیت علیها الذین رأیتُهم، مثل سفیان ومالك وغیرهما: الإقرار بشهادة أن لا إلٰه إلا ﷲ وأن محمدًا رسول ﷲ وأن ﷲ تعالىٰ على عرشه في سمائه یقرب من خلقه کیف شاء، وأن ﷲ تعالىٰ وینزل إلى السماء الدنیا کیف شاء [1] ’’جس طریقہ کار کو میں نے اختیار کیا اورجس منہج پر میں نے امام سفیان ثوری اور امام مالک رحمہما اللہ کو دیکھا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اس کا ا قرار کریں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اوربلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ عرش پر آسمان میں ہے اور اپنی مخلوق سے بھی قریب ہوتاہے، جیسے وہ چاہتا ہے۔ اور آسمان دنیا پر وہ نزول فرماتا ہے جیسے چاہتا ہے۔‘‘ امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول کئی ایک اور بھی بنیادی مصادر کی کتب میں نقل ہو اہے۔
[1] العلو از ذہبی رحمہ اللہ : ص ۱۶۵، مکتبۃ أضواء السلف ، الریاض ؛ مجموع الفتاوی : ۴/۱۸۱، دار الوفاء، ۱۴۲۶ھ