کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 32
یجوز إبطال الأصل بالعجز عن إدراك الوصف بالکیف وإنما ضلت المعتزلة من هٰذا الوجه فإنهم ردّوا الأصول لجهلهم بالصفات فصاروا معطلة [1]
’’[اللہ کی صفات میں سے]ہاتھ اور چہرہ کا اثبات ہمارے نزدیک حق ہے اور اس کا اصل معنی [یعنی حقیقی معنی]معلوم ہے جبکہ اس کی کیفیت متشابہ ہے۔ پس صفات کے اصل[یعنی حقیقی] معنی کو اس وجہ سے ردّ کرنا جائز نہیں ہے کہ صفات کے اس اصل معنی کی کیفیت کا اِدراک ممکن نہیں ہے۔ معتزلہ اسی وجہ سے گمراہ ہوئے اور اُنہوں نے اپنی جہالت کے سبب صفات کے حقیقی معانی کا بھی انکار کر دیا اور معطلہ بن گئے۔‘‘
16. اسی طرح امام طحاوی رحمہ اللہ (متوفی ۳۲۱ھ) لکھتے ہیں :
وأن القرآن کلام ﷲ منه بدأ بلا کیفية قولا [2]
’’یہ کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، اسی سے اس کی ابتدا باعتبارِ قول کے ہوئی ہے اور اس کی کوئی کیفیت بیان نہیں ہو گی۔‘‘
امام مالک رحمہ اللہ بن انس کا عقیدہ
امام مالک رحمہ اللہ (متوفی ۱۷۹ھ) کا بھی صفاتِ باری تعالیٰ میں وہی عقیدہ ہے جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔امام بیہقی (متوفی ۴۵۸ھ)اور امام ابن عبد البر مالکی (متوفی ۴۶۳ھ) امام مالک رحمہ اللہ سے اپنی اپنی سند کے ساتھ ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں :
یحیٰی بن یحیٰی یقول: کنا عند مالك بن أنس فجاء رجل فقال: یا أبا عبد اﷲ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ فکیف استوٰی؟ قال: فأطرق مالك برأسه حتی علاه الرحضاء ثم قال: الاستواء غیر مجهول، والکیف غیر معقول، والإیمان به واجب، والسؤال عنه بدعة، وما أراك إلا مبتدعًا، فأمر به أن یخرج [3]
[1] اُصولِ بزدوی : ص۱۰، جاوید پریس، کراچی
[2] العقیدۃ الطحاویۃ : ص ۴۴،۴۵
[3] الاسماء والصفات از بیہقی: ۲/۳۰۵،۳۰۶؛ التمهید از ابن عبدالبر: ۷/۱۵۱، مؤسسہ القرطبہ، بیروت