کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 31
هو الأصل المعلوم بالنص وتوقفوا فیما هو المتشابه وهو الکیفية ولم یجوزوا الاشتغال بطلب ذلك [1]
’’اعتقادی مسائل میں متشابہ کا جو معنی ہم نے بیان کیا ہے، وہ یہ ہے کہ آخرت میں آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا دیدار نص سے معلوم ، حق اور ثابت ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اور اپنے ربّ کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔پھر وہ صفت ِکمال کے ساتھ موجود بھی ہے اور اللہ کے اپنی ذات اور دوسروں کے لیے دیکھنے جانے سے مراد کمال درجے میں دیکھا جانا ہے مگر اس دیکھنے میں کوئی خاص جہت نہیں ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ جہات سے پاک ہے۔ پس اس صورت میں متشابہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ کو دیکھے جانے کی کیفیت اور جہت متشابہ ہے [نہ کہ دیکھنا یعنی رؤیت کا حقیقی معنی ہی متشابہ ہے]جبکہ دیکھنا تو نص سے معلوم اور ثابت ہے اور اس میں اہل ایمان کی فضیلت ہے۔ اور تشابہ [یعنی متشابہ ہونا] یہاں پررؤیت کی کیفیت میں ہے اور ایسے تشابہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ رؤیت کا حقیقی واصلی معنی ہی باطل یا قابل عیب ٹھہرے ۔ اس طرح کا معاملہ صفت ِ’ید‘ او ر صفت’ِوجہ‘ کا بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں قرآن میں بیان کیا ہے تو اُن کا معنی معلوم ہے لیکن ان کی کیفیات متشابہ ہیں ۔ پس کیفیت کے متشابہ ہونے کی وجہ سے حقیقی و اصلی معنیٰ باطل قرار نہیں پائے گا۔ جہاں تک معتزلہ کا تعلق ہے، اللہ اُنہیں رسوا کرے، اُنہوں نے صفات کی کیفیت کے مشتبہ ہوجانے کی وجہ سے ان کے حقیقی معنی کا بھی انکار کر دیاپس وہ اللہ کی صفات کے منکر بن گئے۔جبکہ اہل سنت والجماعت، اللہ تعالیٰ ان کی مدد ونصرت فرمائے، صفات کی نصوص کے حقیقی و اصلی معنی کا اثبات کرتے ہیں اور ان صفات میں جو چیز متشابہ ہے اس میں توقف کرتے ہیں اور وہ متشابہ چیز ان کی کیفیت ہے اور اس کیفیت کے پیچھے پڑنے کو اہل سنت جائز قرار نہیں دیتے ہیں ۔‘‘
یہ واضح رہے کہ سلفی حنفی علما اللہ تعالیٰ کے لیے جہات کا انکار کرتے ہیں لیکن صفت ِعلو یا فوقیت کو ثابت کرتے ہیں جیسا کہ ’فقہ اکبر‘اور عقیدہ طحاویہ اور شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے:
15 امام بزدوی رحمہ اللہ بھی متشابہ کے بارے مشایخ حنفیہ کا مسلک بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
إثبات الید والوجه حق عندنا معلوم بأصله متشابه بوصفه ولا
[1] اُصول السرخسی: ص۱۷۰، دار الکتاب العلمیہ، بیروت