کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 30
اب اس کو مولانا سلیم اللہ خان صاحب یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ تفویض مطلق ہے؟ اور استوا کا اس قدر معنیٰ بیان کرنا ہی تفویض کہلاتا ہے۔اگرتو مولانا کی تفویض سے یہی مراد ہے جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے حوالے سے مذکورہ بالا عبارت میں بیان ہوئی ہے تو پھر ان کے اور سلفیہ کے مابین اختلاف لفظی ہے۔ یعنی استوا سے مراد آسمان میں ہونا لینا کیا تفویض مطلق ہے یا لفظ کو حقیقی معنی پر برقرار رکھ کر اس کی کیفیت بیان کرنے سے اجتناب کرنا ہے؟ 13. امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے جب اللہ تعالیٰ کے آسمان دنیا پر نازل ہونے کے بارے سوال ہوا تو اُنہوں نے جواباً کہا: ینزل بلا کیف [1] ’’اللہ تعالیٰ نازل ہوتے ہیں لیکن اس کی کیفیت بیان نہیں ہو گی۔‘‘ 14. مشہور حنفی فقیہ شمس الائمہ امام سرخسی رحمہ اللہ (متوفی ۴۳۸ھ) محکم اور متشابہ کی بحث میں قرآن میں متشابہ کا معنی سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں : وبیان ما ذکرنا من معنی المتشابه من مسائل الأصول أن رؤية ﷲ بالأبصار في الآخرة حق معلوم ثابت بالنص، وهو قوله تعالىٰ ﴿وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌۚ وَ وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍۭ بَاسِرَةٌ﴾ ثم هو موجود بصفة الکمال، وفي کونه مرئیا لنفسه ولغیره معنٰی الکمال إلا أن الجهة ممتنع، فإن ﷲ تعالىٰ لا جهة له فکان متشابها فیما یرجع إلی کیفية الرؤية والجهة، مع کون أصل الرؤية ثابتًا بالنص معلومًا کرامة للمؤمنین، فإنهم أهل لهذه الکرامة، والتشابه فیما یرجع إلىٰ الوصف لا یقدح في العلم بالأصل ولا یبطل، وکذلك الوجه والید على نص ﷲ تعالىٰ في القرآن معلوم وکیفیــية ذلك من المتشابه فلا یبطل به الأصل المعلوم. والمعتزلـة ــ خذلهم ﷲ ـــ لاشتباه الکیفية علیهم أنکروا الأصل فکانوا بإنکارهم صفات تعالىٰ وأهل السنة والجماعة ــ نصرهم ﷲ ــ أثبتوا ما
[1] شرح الفقہ الاکبر از علی قاری : ص ۱۲۶، دار البشائر الاسلامیہ،بیروت ؛ شرح العقیدۃ الطحاویۃ از ابو العز حنفی: ص ۲۱۸، الاسماء والصفات از بیہقی: ۲/۳۸۰