کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 3
تعینات بتایا۔ یہاں یہ بھی سامنے آچکا کہ ڈیوس نے اپنے بچاؤ کےلیے نہیں بلکہ طیش میں انتہائی بےدردی سے دو پاکستانیوں کے خون سے ہاتھ رنگا جبکہ اس کی مدد کے لیے آنے والی گاڑی نے ایک اور نوجوان کو روند ڈالا۔ اس سب کے باوجود امریکی ’نمک خواروں ‘ کا یہ حال ہے کہ امریکا کی وکالت کرتے نہیں تھکتے اور قومی غیرت کا مظاہرہ کرنے والوں کو جذباتی اور کم عقل سمجھتے ہیں !! ویانا کنونشن 1963ء کے مطابق قونصلیٹ کے کسی بھی عہدیدار، چاہے وہ اعلیٰ ترین سفارتکار ہو، کو قتل جیسے سنگین جرم میں سفارتی استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا مگر امریکا کے نمک خواروں کی یہ حالت ہے کہ وہ کسی منطق کو مانتے ہیں اور نہ کوئی دلیل سننے کے لیے تیار ہیں ۔ وہ تو ہر صورت میں قاتل امریکی کو امریکا کے حوالے کرنے کا راگ اَلاپ رہے ہیں ۔ وزارتِ خارجہ کے ریکارڈ میں ڈیوس ایک سفارتکار یا ایمبیسی کے اہلکار کے طو رپر رجسٹرڈنہ تھا اور نہ ہی اس کو وزارت خارجہ کا ڈپلومیٹک شناختی کارڈ دیا گیا۔ اس دہرے قتل کے بعد اب یہ وزارت سخت دباؤ کا شکار ہے کہ ڈیوس کو ایمبیسی کا سفارتکار دکھا کر اس کو ایک ایسے سنگین جرم میں استثنیٰ دیا جائے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی اور جس کی وجہ سے تین جانیں ضائع ہوئیں ۔ امریکی ویزے، ڈالروں کے بدلے اور کچھ اپنے دوسرے شوق کی خاطر ملک و قوم کی عزت کا سودا کرنے والے تو کچھ سمجھنے سے قاصر ہیں ، اس لیے میں یہاں عام قارئین کی خدمت میں کچھ حقائق پیش کررہا ہوں : 1. ریمنڈ کے اپنے بیان کے مطابق وہ لاہور قونصلیٹ میں تعینات تھا۔ تفتیشی حکام نے اس سے بارہا اس بات کی تصدیق کی۔ منظرعام پر آنے والی ایک ویڈیو میں تو تفتیش کا عمل شرو ع ہونے سے پہلے جونیئر پولیس آفیسرز نے اُس سے یہاں تک پوچھا کہ ’’آیا تم امریکی ایمبیسی میں تعینات ہو؟‘‘ تو ریمنڈ نے واضح طور پر کہا: نہیں ، میں امریکی قونصلیٹ لاہور میں تعینات ہوں ۔ 2. لاہور قونصلیٹ کے حکام نے باقاعدہ جاری کی گئی ریلیز میں عین وقوعہ کے دن ریمنڈ