کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 28
ویرضٰى ولا یقال: غضبه عقوبته، ورضاه ثوابه [1] ’’اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی صفات سے موصوف نہیں کیا جائے گا۔ غضب او ر رضا اللہ کی صفات میں سے دو صفات ہیں جن کی کیفیت بیان نہیں ہو گی۔ یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غضب میں بھی آتے ہیں اور راضی بھی ہوتے ہیں ۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اللہ کے غضب سے مراد اُس کی طرف سے سزا ہے اور اس کی رضا سے مراد اس کی طرف سے ثواب ہے۔‘‘ 11. عقیدہ کی مشہور کتاب العقیدہ الطحاویہ کے شارح علامہ ابن العز حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : روٰی شیخ الإسلام أبو إسمٰعیل الأنصاري في کتابه الفارق بسنده إلی مطیع البلخي أنه سأل أبا حنیفة عمن قال: لا أعرف ربي في السماء أم في الأرض فقال : قد کفر لأن اﷲ یقول: الرحمٰن على العرش استوٰی وعرشه فوق سبع سماواته. قلت: فإن قال: إنه علىٰ العرش ولکن یقول لا أدري العرش في السماء أم في الأرض؟ قال: هو کافر لأنه أنکر أنه في السماء فمن أنکر أنه في السماء فقد کفر [2] ’’شیخ الاسلام ابو اسماعیل انصاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’الفارق‘ میں اپنی سند سے مطیع بلخی سے نقل کیا ہے کہ اُنہوں نے کہا کہ میں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اس شخص کے بارے سوال کیا جو یہ کہتا ہے: میں نہیں جانتا کہ میرا ربّ آسمان میں ہے یا زمین میں ؟ تو امام صاحب نے فرمایا : اس نے کفر کیاکیونکہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ وہ عرش پر مستوی ہیں اور اللہ کا عرش سات آسمانوں پر ہے۔ میں [یعنی مطیع بلخی] نے پھر یہ سوال کیا کہ اگر وہ شخص یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو عرش پر ہے لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ عرش آسمان میں ہے یا زمین میں ؟تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: یہ شخص بھی کافر ہے کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا تو وہ کافر ہے۔‘‘
[1] الشرح المیسر على الفقهین الأبسط والأکبر : ص۱۵۹، مکتبہ الفرقان، ۱۴۱۹ھ [2] شرح العقیدة الطحاوية: ص۲۸۰، المکتب الاسلامي، بیروت ؛ الفقه الأبسط مع شرحه: ص۱۳۵، مکتبہ الفرقان ۱۴۱۹ھ ؛ العلو للذهبي: ص ۱۳۶، مکتبہ اضواء السلف، الریاض