کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 27
کیونکہ صفات کی کیفیات کا معقول المعنیٰ ہونا، ذات کی کیفیت اور اس کی کنہ کے علم کی ایک شاخ ہے۔پس جب اللہ تعالیٰ کی ذات اور کنہ غیر معلوم ہے تو اس کے صفات کی کیفیات بھی معقول نہیں ہو سکتیں ۔ اس مسئلے میں نافع اور محتاط قول یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر اس صفت سے موصوف کیا جائے جس کے ساتھ اللہ نے خود یا اللہ کے رسول نے اللہ تعالیٰ کو موصوف کیا ہو اور ان صفات کے معانی میں نہ تو تحریف کی جائے [یعنی تاویل] اور نہ ہی تعطیل کی جائے [یعنی ان صفات کے حقیقی معانی کا انکار کیا جائے یعنی تفویض مطلق وغیرہ] اور نہ ہی ان کی کیفیت بیان کی جائے اور نہ ہی ان کی مثال بیان کی جائے [یعنی مخلوق سے مشابہت دی جائے ]بلکہ اللہ کے لیے جمیع اَسما اور صفات کا اثبات کیا جائے اور ان اسما و صفات کی مخلوق کے اسما و صفات سے مشابہت سے انکار کیا جائے۔ پس تیرا صفات کا اِثبات اس طرح ہو کہ اس میں تشبیہ موجود نہ ہو اور صفات کی کیفیات کے بارے تیری نفی یوں ہو کہ اس سے صفات کا ظاہری اور حقیقی معنی کا انکار نہ ہو۔ پس جس نے اِستوا کے حقیقی معنیٰ کا ہی انکار کر دیا تو وہ معطلہ میں سے ہے اور جس نے استوا کی تشبیہ یوں بیان کی کہ یہ ایسا ہے جیسے ایک مخلوق دوسری مخلوق پر ہوتی ہے تو یہ مشبہ میں سے ہے اور جس نے یہ کہا کہ اِستوا تو ہے لیکن اس طرح کہ اس کی مانند کوئی شے نہیں ہے تو وہی درحقیقت موحد اور تنزیہ بیان کرنے والا ہے۔یہاں پر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام ختم ہوا۔
[اب میں یعنی ملا علی القاری یہ کہتا ہوں ] کہ اس کلام سے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مقصد واضح ہو گیا ہے اور اُن کا عقیدہ بھی کھل کر سامنے آ گیا ہے اور یہ وہی عقیدہ ہے جو سلف صالحین اور جمہور خلف کا ہے۔ پس طعن و تشنیع اور بدترین تقبیح کی نسبت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے لیے درست نہیں ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام بعینہٖ وہی کلام ہے جسے امام اعظم اور مجتہد اکبر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’فقہ ِاکبر‘ میں بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھ اور چہرہ اور نفس ہے ۔‘‘
10. اپنی ایک اور کتاب فقه أبسط میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لایوصف اﷲ تعالىٰ بصفات المخلوقین، وغضبه ورضاه صفتان من صفاته بلا کیف، وهو قول أهل السنة والجماعة، وهو یغضب