کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 26
والسؤال عنه بدعة ـــ فَرَّقَ بین المعنٰی المعلوم من هذه اللفظة وبین الکیف الذي لا یعقله البشر وهذا الجواب من مالك رحمه اﷲ شاف عام في جمیع مسائل الصفات من السمع والبصر والعلم والحیاة والقدرة والإرادة والنزول والغضب والرحمة والضحك ـــ فمعانیها کلها معلومة وأما کیفیتها فغیر معقولة إذ تعقل الکیف فرع العلم بکیفية الذات وکنهها۔ فإذا کان ذلك غیر معلوم فکیف یعقل لهم کیفية الصفات والعصمة النافعة من هٰذا الباب أن یصف اﷲ بما وصف به نفسه ووصف به رسوله من غیر تحریف ولا تعطیل ومن غیر تکییف ولا تمثیل بل یثبت له الأسماء والصفات وینفی عنه مشابهة المخلوقات فیکون إثباتك مُنزّها عن التشبیه ونفیك مُنزّها عن التعطیل فَمَنْ نفٰی حقیقة الاستواء فهو مُعطِّل ومن شبَّهه باستواء المخلوقات علی المخلوق فهو مشبه ومن قال استواء لیس کمثله شيء فهو الموحد المنزه.انتهٰی کلامه وتبین مرامه وظهر أن معتقده موافق لأهل الحق من السلف وجمهور الخلف فالطعن التشنیع والتقبیح الفظیع غیر موجه علیه ولا متوجه إلیه فإن کلامه بعینه مطابق لما قاله الإمام الأعظم والمجتهد الأقدم في فقهه الأکبر ما نصه وله تعالی ید ووجه ونفس [1]
’’[امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :] امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ اللہ کا مستوی ہونا تو معلوم ہے لیکن کیفیت غیر معقول ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کیفیت کے بارے سوال کرنا بدعت ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے ان الفاظ کے ذریعہ صفات کے معلوم معنیٰ اور غیر معقول کیفیت میں فرق کیا ہے۔امام مالک رحمہ اللہ کا یہ جواب جمیع صفاتِ باری تعالیٰ مثلاً سماعت، بصارت، علم، حیات، قدرت، اِرادہ، نزول، غضب، رحمت اور ضحک وغیرہ کے بارے کافی وشافی ہے۔ پس جمیع صفاتِ باری تعالیٰ کے معانی معلوم ہیں جبکہ ان کی کیفیات غیر معقول ہیں
[1] مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثانی