کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 25
ایسا بالکل بھی نہیں ہے، بلکہ امام صاحب کا اس عبارت سے مقصود یہ ہے کہ صفات اپنی حقیقی معنیٰ کے ساتھ ثابت ہیں لیکن بغیر کیفیت کے ہیں ۔اگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے لیے مفوضہ یا مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا عقیدہ لیں تو پھر صفات کے اِثبات سے مراد صرف الفاظ کا اثبات ہو گا کیونکہ تفویض کی صورت میں تو کوئی بھی معنیٰ مراد نہیں لیا جاتا۔
٭ اب ہم اس طرح آتے ہیں کہ کبارحنفی علما نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ان عبارات سے تفویضِ مطلق کا عقیدہ سمجھا ہے یا صفات کے حقیقی معنی کے اثبات کا سلفی عقیدہ؟
8. فخرالاسلام امام بزدوی رحمہ اللہ ’فقہ اکبر‘ کی اس عبارت کی شرح میں فرماتے ہیں :
[فهو له صفات بلا کیف] أي أصلها معلوم ووصفها مجهول لنا فلا یبطل الأصل المعلوم بسبب التشابه والعجز عن درك الوصف، رُوي عن أحمد بن حنبل رحمه اﷲ تعالىٰ أن الکیفية مجهول والبحث عنه بدعة [1]
[پس یہ اللہ کی صفات ہیں بلا کیفیت کے ] امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی اس عبارت سے مراد یہ ہے کہ ان صفات کا حقیقی اور اصلی معنیٰ معلوم ہے جبکہ کیفیت مجہول ہے۔ پس ان صفات کے حقیقی اور اصلی معنی کا انکار اس وجہ سے نہ کیا جائے گا کہ اس سے مخلوق کے ساتھ [صفات میں ] تشابہ لازم آتا ہے اور اس وجہ سے بھی اس حقیقی و اَصلی معنی کا انکار نہیں ہو گا کہ اس کی کیفیت کا اِدراک ممکن نہیں ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ صفات کی کیفیت مجہول ہے اور اس کیفیت کے بارے بحث کرنا بدعت ہے:
9. ملا علی القاری رحمہ اللہ (متوفی ۱۰۱۴ھ) فرماتے ہیں کہ صفات کے مسئلے میں جو عقیدہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا تھا، وہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ ہے جو اُنہوں نے ’فقہ اکبر ‘ میں بیان کیا ہے۔ ملا علی القاری یہ بھی لکھتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو تجسیم کا قائل قرار دینا صحیح نہیں ہے بلکہ صفات کے بارے ان کا موقف وہی تھا جو سلف صالحین کا ہے اور وہ یہ ہے کہ صفات کا معنی معلوم اور کیفیت مجہول ہے۔ ملا علی القاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قال: الاستواء معلوم والکیف غیر معقول والإیمان به واجب
[1] شرح الفقہ الاکبر از امام بزدوی : ص۱۰