کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 23
ہے۔پہلی قسم کے علم میں کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لینا اور ہواے نفس اور بدعتی مناہج سے دور رہنا اور اہل سنت والجماعت کے منہج کو مضبوطی سے پکڑ لیناہی اصلاً مقصود ہے۔ اہل سنت والجماعت کا منہج وہی تھا جوصحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہ اللہ کا ہے اور جو سلف صالحین کا ہے اور اسی منہج پر ہم نے اپنے مشائخ حنفیہ اور متقدمین حنفیہ یعنی امام ابو حنیفہ ،امام ابو یوسف، امام محمد اور ان کے اصحاب رحمہ اللہ کو پایا ہے۔ اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ نے ایک کتاب ’فقہ اکبر‘ کے نام سے لکھی ہے اور اس کتا ب میں اُنہوں نے صفات کا اثبات کیا ہے۔‘‘
امام بزدوی رحمہ اللہ کی اس عبارت میں چند بنیادی باتیں بیان ہوئی ہیں :
4. امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اعتقادی مسائل میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ’فقہ اکبر‘ ہے۔
5. اس کتاب میں جو عقیدہ بیان ہوا ہے وہ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد اور کبار حنفی علما و مشائخ کا ہے۔
6. اس کتاب میں جو عقیدہ بیان ہوا ہے، وہی صحابہ وتابعین کا عقیدہ ہے۔
7. اس کتاب میں جو عقیدہ بیان ہو اہے، وہ اہل سنت والجماعت کا ہے۔
اب ہم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی اس کتاب میں بیان شدہ عقیدہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کیا ہے؟ کیاوہ تاویل کا عقیدہ ہے جیسا کہ ماتریدیہ حنفیہ کا عقیدہ ہے ؟ یا وہ تفویضِ مطلق کاعقیدہ ہے جیسا کہ مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا عقیدہ ہے؟ یا صفات کو ان کے حقیقی معنی پرباقی رکھنے اور کیفیت نہ بیان کرنے کا عقیدہ ہے جیسا کہ سلفی عقیدہ ہے؟
٭ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وله ید و وجه ونفس کما ذکره ﷲ تعالىٰ في القرآن، فما ذکره ﷲ تعالىٰ في القرآن من ذکر الوجه والید والنفس فهو له صفات بلا کیف، ولایقال إن یده: قدرته أو نعمته لأن فیه إبطال الصفة وهو قول أهل القدر والاعتزال ولکن یده صفته بلا کیف وغضبه ورضاه من صفات ﷲ تعالىٰ بلا کیف [1]
’’اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھ ، چہرہ او ر نفس ثابت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان صفات کا قرآن
[1] الفقه الاکبر مع شرحه: ص27، مکتبۃ الفرقان، 1419ھ