کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 19
سوائے ایمان کی حقیقت کے مسئلے میں ،جس میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا اختلاف نقل ہوا ہے لیکن اس مسئلے کے بارے میں بھی امام ابن عبد البرمالکی رحمہ اللہ اور امام ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ کا رجحان یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے اسی قول کی طرف رجوع[1] کر لیا تھا جو ائمہ ثلاثہ کا ہے۔ اس کے برعکس فقہی اور عملی مسائل میں حالات اور زمانے کے تغیرات کی وجہ سے بہت دفعہ نصوص کا اطلاق تبدیل ہونے کا مغالطہ ہوتا ہے۔اسی بنا پر ابن قیم اسے فتوی کی تبدیلی سےتعبیر کرتے ہیں ۔ لہٰذا ان میں اجتہاد کی بڑی اہمیت ہوتی ہے جو قدیم مسائل میں اصحابِِ ترجیح کا سا ہوتا ہے نہ کہ اجتہادِ مطلق کی حیثیت کا حامل۔ اہل الحدیث کے فتاویٰ ہماری اس بات کے شاہد ہیں ۔
پس حنفیہ نے کسی متعین فقہ کی تقلیدکو لازم قراردے کر کسی تعبیر خاص کو عین دین اسلام یا وحی کی صورت شریعت ِاسلامیہ کی طرح دائمی قرار دے دیا ہے جبکہ اہل حدیث کے نزدیک کوئی متعین فقہ ایک عارضی اور بدلتی شے ہے جب کہ صرف وحی والہام (شریعت ِاسلامیہ)ہی دائمی ہے لہٰذاحق کسی ایک متعین فقہ میں محصور نہیں ہے چنانچہ وہ کتاب وسنت کی بنیاد پر سب فقہوں اور جمیع فقہاےمحدثین سے برابر کی سطح پر استفادہ کے قائل ہیں ۔
بعض حنفی علما نے جب یہ دیکھا کہ اہل الحدیث اعتقادی مسائل میں سلف صالحین کی اتباع کے قائل ہیں اور حنفیہ کو اس باب میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے سلفی ہونے کی بنا پر ان کی تقلید کی دعوت بھی دیتے ہیں تو اُنہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مروی سلفی عقیدے میں تاویلات کا ایک باب کھول کر اُنہیں ’ماتریدیہ‘ کی طرح ’مؤوّلہ‘ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ مولاناسلیم اللہ خاں صاحب نے بھی اپنے اس مقالہ میں ان علماء کی مذمت کی ہے جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو کھینچ تان کر اہل تاویل میں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بلکہ تاویل کے رد عمل میں ان علما نے ایک دوسری انتہاء یہ اختیار کی کہ اپنے امام کو مفوضہ بنا دیا۔ان علما میں مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا سلیم اللہ خان صاحب اور بعض علماے دیوبند شامل ہیں ، حالانکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ
[1] اعتقاد الأئمة الأربعة از ڈاکٹر محمد بن عبد الرحمن الخمیس : ص۷