کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 18
فقہ کی تدوین کر رہے ہیں بلکہ علماے اہل حدیث کے فتاویٰ کو دیکھا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ ائمہ کی آراء کو قرآن وسنت پر پیش کر کے قدیم مسائل میں کسی نہ کسی فقہی مذہب یا امام کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ، البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ ائمہ اربعہ تک محدود نہیں رہتے۔ جدید مسائل میں وہ کتاب وسنت سے ائمہ سلف کے طریقہ کار کی روشنی میں براہ راست استدلال کرتے بھی نظر آتے ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ فقہاے حنفیہ نے فقہ حنفی میں متقدمین حنفیہ سے مروی متفرق اَقوال میں دلائل کی بنیاد پر راجح اور مرجوح قول کا جو منہج اختیار کیا ہے اور ایسے فقہا کو ’اصحابِِ ترجیح‘ کا نام دیا ہے ، اسی معنی میں اہل حدیث نے فقہ حنفی کی بجائے جمیع مذاہب ِاسلامیہ یا معروف فقہا سے مروی اَقوال میں قرآن وسنت کے دلائل کی بنیاد پر ترجیح کا موقف اختیار کیا ہے۔قدیم فقہی مسائل میں اہل حدیث کا یہی طرزِ عمل ہے البتہ جدید مسائل کا معاملہ ہو تو وہاں شاید حنفی مقلدین، اہل حدیث کی نسبت زیادہ اجتہاد کر نے کے دعوے دار ہیں جب کہ محقق اہل حدیث اسے ’حیلے ‘قرار دیتے ہیں ۔آج کل مروّجہ اسلامی بینکاری اس کی ایک مثال ہے۔گویا قدیم مسائل میں حنفی ایک ہی مذہب میں علما کے اختلاف کی صورت میں ترجیح قائم کرنے کےباوجود اسے تقلید کا نام دیتے ہیں جبکہ اہل حدیث جمیع مذاہب ِاسلامیہ:حنفی، شافعی،مالکی،حنبلی،ظاہری وغیرہ کے اقوال و آرا میں دلیل کی بنیاد پر راجح اور مرجوح کا تعین کرتے ہیں اور اسے ’اتباع‘ کا نام دیتے ہیں ۔
چونکہ اعتقادی مسائل میں عموماً قیاس وغیرہ کی گنجائش نہیں ہوتی،یعنی اعتقادی مسائل حالات اور زمان و مکان کی تبدیلی سے متاثر ہوئے بغیر ویسے ہی رہتے ہیں ،کیونکہ ان کا تعلق زیادہ تر خبر سے ہوتا ہے جو غیر متبدل رہتی ہے، پس عقیدے کے مسائل میں ہمیں پیچھے سے پیچھے جانا چاہیے اور سلف صالحین یعنی صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اسلاف رحمہ اللہ کے طریق کار کی اتباع کرنی چاہیے۔
یہ بھی واضح رہے کہ اعتقادی مسائل میں اہل سنت(سلف صالحین) میں کوئی زیادہ اختلاف مروی نہیں ہے بلکہ اکثر اعتقادی مسائل میں ائمہ اربعہ کا عقیدہ تقریبا ایک ہی ہے،