کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 17
کے احناف کی اکثریت ’ماتریدی‘ ہے جیساکہ اکابر علماے دیوبند کی اکثریت ’ما تریدیہ‘ ہے۔ خلیجی ممالک کے اکثر حنفی عقیدہ میں سلفی ہیں ۔ عقیدہ کی مذکورہ بالا تقسیم تو حنفیہ کے مابین قرونِ وسطیٰ میں رہی ہے جبکہ برصغیر پاک وہند میں یہ حضرات تصوف میں غلو اور اعتدال کی بحث کے نتیجے میں دو بڑے دھڑوں بریلوی اور دیوبندی مسالک میں تقسیم ہو گئے ہیں ۔ آج حنفی بریلو ی علماء کی اکثریت کو توحید ِاُلوہیت کے باب میں جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور متقدمین فقہاے حنفیہ رحمہ اللہ کے اقوال سنائے جاتے ہیں اور اُنہیں اعتقادی مسائل میں اپنے حنفی ائمہ سلف کی پیروی کی دعوت دی جاتی ہے تو اُن کا سادہ جواب یہ ہوتا ہے کہ ’’عقائدمیں تقلید حرام ہے۔‘‘ خلاصہ کلام یہ ہے کہ حنفیہ نے فقہی مسائل میں تو تقلید ِجامد کا ثبوت دیا اور اس کو واجب قرار دیا لیکن اعتقادی مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید نہ کرنے کی وجہ سے یہ کئی فرقوں اشعری،ماتریدی،معتزلی،بریلوی، دیوبندی، حیاتی، مماتی،وجودی، شہودی، مفوضہ،مؤوّلہ وغیرہ میں بٹ گئے۔پس حنفیہ من وجہ مقلد ہیں اور من وجہ غیر مقلد ہیں ۔فقہی مسائل میں حنفی مذہب کے مقلد ہیں جب کہ اعتقادی مسائل میں یہ امام ابو حنیفہ کی تقلید کے قائل نہیں ہیں ۔ اس کے برعکس سلف صالحین کی اتباع کے دعویدار ’ اہل حدیث‘ کی دعوت یہ ہےکہ اعتقادی مسائل میں ائمہ سلف یعنی صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اربعہ کی پیروی ہونی چاہیےاسی بنا پر اعتقادی مسائل میں سلف صالحین کی اتباع پر کاربند ہونے کی وجہ سے ہی اہل حدیث ’سلفی‘ کہلاتے ہیں ۔ جبکہ فقہی مسائل میں اہل حدیث کسی متعین امام کی تقلید کے قائل نہیں ہیں ۔بلکہ تمام فقہی آراء کو کتاب وسنت پر پیش کر کے اقرب الی السنۃ کو اختیار کر لیتے ہیں ۔ البتہ دو بنیادی باتوں کی وضاحت ضروری ہے کہ اہل حدیث فقہی مسائل میں اگر علماے اُمت کا اجماع ہو تو اس اجماع کی حجیت کے قائل ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب اہل حدیث کسی متعین امام کی تقلید نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ تجدد کی راہ پر ہیں یا کسی نئی