کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 16
ابوحنیفہ کے مقلد[1] ہوں گے۔علماے حنفیہ نے اگرچہ یہ سارا کام اس پردہ میں کیا ہے کہ عدمِ تقلید ایک فتنہ ہے اوراس سے اجتناب ضروری ہے حالانکہ اعتقادی مسائل میں ان کے ہاں بھی تقلید حرام ہے۔پس حنفیہ نے اہل حدیث پر اس لحاظ سے بہت زیادہ طعن کیا کہ وہ غیر مقلد ہیں اور کسی متعین امام کی تقلید کے قائل نہیں ہیں یہاں تک کہ حنفی عوام الناس میں ’غیر مقلدہونا‘ ایک گالی بن کررہ گیا۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ حنفی علما نے اپنے عوام کے سامنے اہل حدیث کا اتباع اور تقلید میں فرق کا وہ موقف، جو ولی اللّٰہی تحریک کی اساس ہے، صحیح طور پر آج تک پیش ہی نہیں کیاحالانکہ بہت سے دیوبندی علمابھی شاہ ولی اللہ کی فکر کے حاملین میں سے ہونے کے دعویدار ہیں ۔ پس جہاں تک عقیدہ میں تقلید کا مسئلہ ہے تو اس بارے حنفی اور اہل حدیث علما کا اتفاق ہے کہ تقلید نہیں ہونی چاہیے، لیکن فقہی وفروعی مسائل میں دونوں کے مابین ’اتباع‘ یعنی کتاب وسنت کی دلیل کی بنیاد پر سلف صالحین کی پیروی اور ’تقلید‘ یعنی بلادلیل کسی متعین فقیہ کی پیروی کا فرق ہے۔’تقلید‘ کا لفظ آج کل عرب ممالک میں ’نقالی‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے،مثلاً سڑکوں پر یہ بورڈ آویزاں ہوتے ہیں :احذر التقليد ولاحظ الماركة ’’نقالوں سے ہوشیار رہو اور ٹریڈ مارک دیکھ کر سودا کرو‘‘ حنفی علما کے نزدیک بے علم عوام الناس کے لیے فقہی مسائل میں ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلید ہونی چاہیے توسوال پیدا ہوتا ہے کہ اعتقادی مسائل تو اس سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہونے کے باوصف تقلید ائمہ کے حقدار کیوں نہیں ہیں ؟ حنفیہ میں سے عقائد میں تقلید کے حرام ہونے کی وجہ ہی سے بعض حنفی اعتقادی طور پر معتزلی ہوتے ہیں جیسا کہ علامہ زمخشری رحمہ اللہ اور بعض سلفی بھی ہیں جیسا کہ امام ابویوسف، امام محمد، امام طحاوی، اور ابن ابی العز حنفی رحمہم اللہ وغیرہ ۔ بعض علما نے امام بزدوی اور ملا علی قاری کے متعلق سلفی ہونے کا دعوی کیا ہے اور بعض ’اشعری‘ ہیں جیسا کہ شیخ احمد سرہندی(مجدد الف ثانی) جبکہ برصغیر
[1] فتاویٰ شامیہ :جلد۱/ ص ۱۴۲، دار احیاء التراث العربی