کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 15
جس کے پیش نظر وہ عقیدہ میں ائمہ اربعہ کی تقلید حرام سمجھنے کی بنا پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (متوفی ۱۵۰ھ) کی تقلید ترک کر دیتے ہیں لیکن حنفی عوام کے سامنے اپنے امام کی مخالفت کے طعن سے بچنے کے لیے امام صاحب کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے تاویلات اور حِیَل کا ایک نہ ختم ہونے والاباب کھول دیتے ہیں ۔ جن حضرات نے ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے مناقب پر لکھی جانے والی کتب کا مطالعہ کیا ہے اور وہ سلف صالحین اور ائمہ مجتہدین کے دور کے بہت بعد چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہونے والے فقہی جمود کے پس منظر سے بھی واقف ہیں ، اس مناظراتی، جدلیاتی اور فکری جنگ سے ضرور آگاہ ہوں گے جو چوتھی صدی ہجری کے تقلیدی جمود کے دور سے شروع ہو کر صدیوں حنفیہ اور شافعیہ کے مابین جاری رہی۔ بعد ازاں ایک طرف تو شافعیہ جغرافیائی اعتبار سے شرقِ بعید مثلاً انڈونیشیا، ملائیشیا وغیرہ کے علاقوں میں پھیل گئے اور دوسری طرف برصغیر پاک و ہند میں تقلید ِجامد کے خلاف شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ اور ان کے ہمنواؤں کی طرف سے فروغ ِ حدیث (اہل حدیث) کی تحریک برپاہوئی یعنی نصوص کو فصوص پر اور سنت کو فقہ پر ترجیح دینے یا اجتہادات ِائمہ کو کتاب وسنت پر پیش کرنے کے دور کا آغاز ہوا تو ان مناظروں اورمجادلوں کا رخ شافعیہ سے اہل حدیث کی طرف پھرگیا اور حنفیہ اور غیر مقلداہل حدیث کے مابین بظاہر نہ ختم ہونے والے مناظرات کے ایک طویل سلسلہ نے جنم لیا۔ اہل حدیث کے ساتھ اس فکری اورعلمی مباحثہ میں علماے حنفیہ نے ائمہ رحمہ اللہ کی تقلید پراتنا زور دیاکہ نہ صرف ائمہ اربعہ میں سےہر ایک کی تقلیدشخصی کو واجب قرار دیابلکہ اُنہوں نے اپنے عوام الناس میں اس فکر کو خوب اچھی طرح راسخ کر دیا کہ فقہی مسالک میں تقسیم ہو کر ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ مزید برآں اپنی درسگاہوں میں ائمہ اربعہ میں سے بھی ائمہ ثلاثہ کے موقف پر امام ابو حنیفہ کے مذہب کو عقلی ونقلی دلائل سے راجح قرار دینے کے لیے زندگیاں کھپا دیں اور بعض انتہا پسندوں نے تو فقہ حنفی کے راجح ہونے کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ بھی بیان کر دی کہ سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام بھی امام