کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 14
’’مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ نے دوسرے مسلک کو اکثر علما کا اور تیسرے مسلک کو اکثر متاخرین متکلمین کا مذہب قرار دیا،چنانچہ مولانا سلیم اللہ خاں اپنے ایک فتویٰ میں لکھتے ہیں :
’’اس باب میں علما کے چند مسلک ہیں : ایک مسلکِ تاویل کہ استوا بمعنی استیلا اور ید بمعنی قدرت اور وجہ بمعنیٰ ذات، وعلیٰ ہذا القیاس اور یہی مختار اکثر متاخرین متکلمین کاہے۔ دوسرا مذہب:تشابه فی المعنی وفی الکیفية۔ تیسرامسلک:معلوم المعنی، متشابہ الکیفیہ اور حق ان میں مسلک ِثالث ہے اور یہی مذہب صحابہ وتابعین و ائمہ مجتہدین ومحدثین وفقہا واُصولیین محققین ہے۔
راجح اور محتاط مسلک: لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثر علما نے پہلا مسلک اختیار کیا ہے جو مسلک تفویض سے مشہور ہے اور وہی مسلک سب سے زیادہ اَسلم اور مذہب ِمحتاط ہے۔‘‘ [1]
اپنے مقالہ کے آخر میں مولانا سلیم اللہ خاں لکھتے ہیں :
’’علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اس مسئلہ میں متشدد تھے لیکن سلفی حضرات اورغیر مقلدین صرف اپنے مسلک کو حق سمجھتے ہیں اور اسی کو اہل سنت کا مسلک قرار دیتے ہیں ، بقیہ حضرات کو وہ گمراہ اور باطل پر سمجھتے ہیں ۔جمہور اہل السنت جن میں حضرات صحابہ، تابعین اور جلیل القدر ائمہ کرام رحمہم اللہ داخل ہیں کو گمراہ سمجھنا، خود بڑی گمراہی ہے۔‘‘[2]
مسئلے کا تاریخی پس منظر
مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے اپنے اس مقالہ میں تفویض مطلق کے مسلک کی نسبت صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ رحمہ اللہ کی طرف کی ہے جو خلافِ حقیقت ہے۔ اس مسئلے میں مولانا سلیم اللہ خان صاحب کی نسبت مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ کی تحقیق راجح اور امر واقعہ کے زیادہ قریب ہے کہ صحابہ ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اربعہ کا مسلک تفویض مطلق نہیں تھا بلکہ وہ صفاتِ باری تعالیٰ کو معلوم المعنی او ر متشابہ الکیفیہ بیان کرتے تھے۔
اس مسئلے پر تحقیقی گفتگو سے پہلے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اس اُلجھن کو سامنے لائیں
[1] ماہنامہ ’وفاق المدارس‘ص9
[2] ایضاً : ص ۱۳