کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 13
خواہ حقیقی ہوں یا مجازی ۔ مولانا لکھتے ہیں :
’’1.پہلامسلک:جمہور علماے اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ یہ نصوص ان متشابہات میں سے ہیں جن کے معنی صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں اور ہم ان کو ثابت تسلیم کرنے کے بعد، ان کے حقیقی یا مجازی معنی بیان و متعین نہیں کر سکتے۔ یہ متشابہ المعنی بھی ہیں اور متشابہ الکیفیہ بھی ہیں : وَ مَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ یعنی اس کی تفسیر صرف اللہ ہی کو معلوم ہے، یہ مسلک ِتفویض ہے اور یہی جمہور متقدمین اہل سنت اور اَئمہ اربعہ کا مسلک ہے۔
2.دوسرا مسلک یہ ہے کہ یہ نصوص اپنی حقیقت پر ہیں ، اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان جو حقیقی معنی اس کے ہو سکتے ہیں ۔ وہی مراد ہیں ،اس کی کیفیت،کنہ اور صورت کیا ہوگی؟یہ معلوم نہیں ، یعنی یہ نصوص و صفات معلوم المعنی اور متشابه الکیفية ہیں ۔اسی مسلک کی وضاحت میں مشہور مقولہ کہا گیا: الإستواء معلوم والکیف مجهول والسؤال عنه بدعة اور الاستواء غیر مجهول والکیف غیر معقول والإیمان به واجب. امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے اُستاذ ربیعہ رحمہ اللہ بن ابو عبد الرحمن وغیرہ کی طرف یہ مقولہ منسوب ہے۔
3.اہل السنت والجماعت کا تیسرا مسلک یہ ہے کہ ان صفات ونصوص کے ایسے معنی مجازی بیان کیے جائیں جو اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہوں اور لفظ کے اندر اس معنی کے مراد لینے کی گنجائش ہو، مثلاً ید سے قدرت، وجه سے ذات اور استوا سے اِستیلا مراد لیا جا سکتا ہے۔ اس مسلک کو ’مسلک ِتاویل‘ کہتے ہیں اور اکثر متاخرینِ اہل سنت نے اس مسلک کو اختیار کیا ہے۔ البتہ جو مجازی معنی مراد لیے جاتے ہیں ، وہ یقینی اور قطعی نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ ان پر جزم کا عقیدہ رکھتے ہیں ، بلکہ وہ ظن اور احتمال کے درجہ میں ہوتے ہیں ، یعنی ید کی تاویل وہ قدرت سے کر کے کہتے ہیں کہ یہ ایک تاویل اور احتمالی تفسیر کے درجہ میں ہے۔ ید سے یقینی اورحتمی طور پر نصوص کے اندر قدرت کے معنی مراد ہیں ، اس کا عقیدہ وہ نہیں رکھتے۔‘‘ [1]
آگے چل کر ایک مقام پر مولانا سلیم اللہ خان صاحب اس بارے مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ کی تحقیق سے اختلاف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
[1] ماہنامہ ’وفاق المدارس‘ص۷،۸نومبر ۲۰۱۰ء