کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 12
ماتریدیہ وغیرہ سب شامل ہیں ۔ معتزلہ اسماء و صفات دونوں کی حقیقت کے منکر ہیں جبکہ اشاعرہ اور ماتریدیہ ’ید‘ (ہاتھ) وغیرہ کے تو منکر ہیں ،لیکن اسما ء الٰہی کے قائل ہیں البتہ تین صفاتِ فعلیہ (غیر لازمہ)میں اس طرح تاویل کرتے ہیں کہ ’حقیقت‘ کے بجائے ’مجاز‘ کو ہی تسلیم کیا جائے، مثلاً اہل تاویل کے ہاں اللہ تعالیٰ لفظی گفتگو پر قادر نہیں ، لہٰذا قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی نفسی کلام ہے۔البتہ صفاتِ باری تعالیٰ میں سے چار صفاتِ لازمہ حیات، قدرت، علم اور ارادہ کے قائل ہیں جب کہ کلام، سمع اور بصر جوصفات غیر لازمہ کہلاتی ہیں ۔اہل سنت اور اشاعرہ، ماتریدیہ کے ہاں یہی معرکۃ الآراء ہیں ۔
اہل سنت والجماعت کے بالمقابل تاویل سے بچنے کا ایک دوسرا طریق کار اہل تفویض کا ہے جو اللہ تعالی ٰکی صفات کے لیے کوئی مجازی معنیٰ پیش کر کے تاویل تو نہیں کرتے،لیکن سرے سے عربی الفاظ کا مفہوم ہی تسلیم کرنے سے انکار کر جاتے ہیں اور ان صفات کو اللہ کے سپرد کر دینے کا مقصد یہ بیان کرتے ہیں کہ اُن کا کوئی لغوی معنی بھی بیان نہ کیا جائے ۔
مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا موقف
ماہنامہ ’وفاق المدارس‘ملتان کے نومبر ۲۰۱۰ء کے شمارہ میں وفاق المدارس العربية کے صدر اور شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کا ایک مضمون شائع ہواجس میں صفاتِ باری تعالیٰ کے بارے بحث کی گئی ہے۔اس مقالہ میں مولانا نے سلفی حضرات کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے مسئلۂ صفاتِ باری تعالیٰ میں اُنہیں متشدد قرار دیا ہے۔ہمیں اس وقت سلفی حضرات کے تشدد اور عدمِ تشدد پر کوئی بحث نہیں کرنا بلکہ ائمہ اربعہ کے بارے میں مولانا کی اس مسئلے میں ایک بنیادی غلط فہمی کو رفع کرنا مقصود ہے جس میں بہت سے معاصر حنفی علما شعوری یا لاشعوری طور پر مبتلا ہیں ۔
مولانا سلیم اللہ خان نے توحیدِاسماء وصفات کےضمن میں اہل سنت کے تین مسالک بیان کیے ہیں اوراُن کے خیال میں جمہور اہل سنت یعنی صحابہ، تابعین اور ائمہ اربعہ کا موقف توحیدِاسماء وصفات کے بیان میں یہ ہے کہ وہ اللہ کی صفات کے بارے مطلقاً تفویض کے قائل ہیں یعنی وہ اللہ کی صفات کی کیفیت بیان کرنا تو کجا ان کے لغوی/عرفی معنی ہی کے قائل نہیں