کتاب: محدث شمارہ 345 - صفحہ 10
سفارت خانہ بند کرنے او رامریکی امداد روک دینے کی افواہیں پھیلائی گئیں ۔ بظاہر کیسے معتبر افراد اور اداروں کے ذریعے، آخر کیوں ؟ کیا ریمنڈڈیوس کے پاس کوئی گہرا تاریک راز ہےجس کے آشکار ہوجانے کا خوف امریکی انتظامیہ کے اعصاب پر سوار ہے۔ کوئی ایسا گورکھ دھندا جو پاکستانی عوام کے علم میں آگیا تو تباہی آجائے گی؟ ریمنڈڈیوس پولیس کے تفتیش کرنے والوں کے سوالات کا جواب دینے سے انکار کیوں کرتا رہا؟ ظاہر ہے کہ لاہور کی قونصل جنرل کے مشورے سے جو تین تین گھنٹے اس سے گفتگو کیا کرتیں ۔ کس چیز کے بارے میں وہ اس سے بات کرتی تھیں ؟ کیا وہ اس کا حوصلہ بندھانے جاتی تھیں یا کسی حکمت ِعملی کی جزئیات پربحث کرنے؟ ایک ملزم کو وکیل کے مشورے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سرپرست سفارت کار کو میدان میں بروئے کار آنا ہوتا ہے۔ وہ جیل کے اندر اتنا قیمتی وقت کیوں برباد کرتی رہیں ؟ کیا اُنہیں اندیشہ تھا کہ وہ پاکستان میں زیرزمین پھیلے امریکی نیٹ ورک کی تفصیلات بتا دے گا یا کچھ اس سے بڑھ کر بھی؟ امریکیوں نے ریمنڈڈیوس کو مزنگ سے اُٹھا کر لے جانے کے لیے اتنا بڑا خطرہ کیوں مول لیا۔ رائفلیں اُٹھائے ان کے لوگ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک معصوم جان کو کچلنے کے مرتکب ہوئے۔ پھر اس گاڑی کے سواروں کو ہر قیمت پر بچانے کی کوشش کی حتیٰ کہ ملک سے باہر بھیج دیا۔ پنجاب حکومت کی طرف سے چھ عدد خطوط لکھنے جانے کے باوجود کہ قونصل خانہ مجرموں کو پناہ دینے کا مرتکب ہے، مرکزی حکومت سوئی کیوں رہی؟ وزارتِ داخلہ نے اُن کے نام ای سی ایل میں کیوں شامل نہ کئے؟ ہوائی اڈوں پرنگرانی کیوں نہ ہوئی؟ ایک تاریک بھید ہے، ایک گہرا تاریخی بھید ! تاریخ مگر یہ بتاتی ہے کہ کوئی راز ہمیشہ راز نہیں رہتا۔ بات کھلے گی اور نتائج پیدا کرے گی۔وجدان یہ کہتا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت تبدیل ہونے کا وقت آپہنچا۔ سیاسی قیادت اگر نہ سمجھ پائی تو وہ عوامی طوفان کی نذر ہوسکتی ہے۔ دریا کی لہروں کے خلاف کب کون تیر سکا ہے؟ تاریخ میں جب طوفان اُٹھتے ہیں تو تنکے راہ نہیں روکتے!! [’ناتمام‘ از ہارون الرشید: 23 فروری 2011ء]