کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 96
تحریر نے مسلمانوں کے دلوں میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق عزت و احترام کے جذبات کو جلابخشی اور آتش محبت کو دوچند کردیا ہے۔ یہ سعادت ماہنامہ ’محدث‘کے حصہ میں آئی کہ سب سے پہلے ان حالات کا صحیح تجزیہ کرتے ہوئے اس مجلہ نے شاندار اور ایمان پرور مضامین کو شائع کرکے پاکستان بھر کے جرائد میں دفاعِ منصب ِرسالت کے میدان میں سبقت حاصل کی ہے۔ جہاں تک عاصمہ جہانگیر کے کردار کا تعلق ہے تو وہ اس قدر شرم ناک ہے کہ حیا اور شائستگی اس بات کی اجازت نہیں دیتی اور اس کے بیان کا حق زبان وقلم سے ادا نہیں ہوسکتا۔ صدیقی صاحب کی یہ تشبیہ کہ راج پال کی روح اور فکر ابھی مری نہیں بلکہ زندہ ہے، واقعی چوکنا کردینے والی ہے۔ 59سال کے فرق کے باوجود حالات اور واقعات بالکل یکساں اورایک جیسے ہیں ۔تعزیرات 1860ءکی دفعہ 295سے لے کرموجودہ 295سی تک کے سفر میں باقی کرداروں سے صرفِ نظر،اس وقت کے زندہ کردار کے رویے سے بحث کرنا انتہائی ضروری تھا۔ ناشر راج پال کی موت کے بعد اسی طرح یہ سلسلہ اب آگے بڑھ رہا ہے۔ اگر اس وقت بھی قانونی پیچیدگیوں کی آڑ نہ لی جاتی اور جج کنور سنگھ قانون کی غلط تشریح نہ کرتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی مگر حالات ایک مرتبہ پھر اسی ڈگر پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اسی کے نتیجہ میں لادین لوگوں کو پہلے ’آفاقی اشتمالیت‘لکھنے کی جرأت ہوئی۔ ایک قادیانیت نواز وکیل، قادیانی شوہر والی اورمذہب سے بے زار، شرم وحیا سے عاری، مغرب نواز اور دریدہ دہن عورت کا وہ بیان کیسے بھلایا جاسکتا ہے جو اس نے جناب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے متعلق دیا تھا۔اور وہ دن ضرور آئے گا کہ مملکت اسلامیہ میں شان رسالت میں زبانیں دراز کرنے والوں کو لگام دی جائے گی۔ ایک مرتبہ پھر میں مضمون نگار او رادارہ محدث کو مبارکباد دینے پر مجبور ہوں کہ ایسے حالات میں حق کا علم بلند کرنا ، بالخصوص جب کہ عالمی حالات او رپاکستانی حکمران اس بات کو سننے کے روا دار نہیں ہیں ، ان حالات میں باطل کا تعاقب اور قوانین اِسلامیہ کو نرم کرنے سے بچانے میں مجاہدانہ کردار ادا کرنا ایک قابل رشک فریضہ ہے۔ ہم اُمید رکھتے ہیں کہ آپکی قیادت میں یہ مجلہ آئندہ اپنی انہی روایات پر ہمیشہ کاربند رہے گا۔ ان شاء اللہ [ابورجال] ۔۔۔۔٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ۔۔۔۔۔