کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 92
متوقع ہے جسے گورنر سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہریار لندن میں قادیانی جماعت کےسربراہ مرزا مسرور احمد سے وصول کریں گے۔
یہاں ایک بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ معروف نعت خوان اختر حسین قریشی اور نقیب محفل قاری محمد یونس قادری نے مقتول گورنر کے ایصالِ ثواب کے لیے ہونے والی تقریبات میں شرکت پر علماے کرام کے فتویٰ کے بعد تجدید ِایمان کیا اور کہا کہ ہم لاعلمی کے باعث تقریبات میں شریک ہوئے۔ تفصیلات کے مطابق قاری محمد یونس نے گورنر ہاؤس میں سلمان تاثیر کی رسم قل جبکہ اختر قریشی نے صوبائی وزیر تنویر الاسلام کی رہائش گاہ پر گورنر کے ایصالِ ثواب کی تقریب میں نعت خوانی کی تھی، فتویٰ کی روشنی میں اُنہوں نے جامعہ رسولیہ شیرازیہ میں مولانا راغب نعیمی، ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی اور دیگر علماے کرام اور گواہان کی موجودگی میں اپنی اس حرکت پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور تجدید ایمان کیا۔
جنازہ کے موقع پر کئی جیالے سگریٹ نوشی کررہے تھے۔ ایک بزرگ کے منع کرنے پر اُن کا کہنا تھا کہ وہ سلمان تاثیر کی موت کا غم بھلانے کے لیے ایسا کررہے ہیں ۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی کے اکثر کارکنان سلمان تاثیر کو ’شہید‘ قرار دے کر نعرے بازی کررہے تھے۔افسوس! اسلامی تعلیمات سے نابلد ان کارکنوں کو ذرا سا بھی احساس نہیں کہ شہید کسے کہتے ہیں یا شہادت کے عظیم رُتبے پر کون کیسے فائز ہوتا ہے؟
1978ء میں پیپلزپارٹی، مرید کے ضلع شیخوپورہ کے نائب صدر عبدالجبار نے محلے کی ایک نابالغ کمسن لڑکی سے ز یادتی کی جس پر وہ جاں بحق ہوگئی۔اس مقدمہ کی سرسری سماعت فوجی عدالت میں ہوئی۔ ضلعی مارشل لا ء ایڈمنسٹریٹر کرنل بشیر نے کیس کی مکمل سماعت کے بعد ملزم کو سزاے موت کا حکم سنایا۔ شیخوپورہ جیل سے پھانسی کے بعد جب ملزم عبدالجبار کی میت مرید کے لائی گئی تو ملزم کے متعلق شہید کے نعرے لگائے گئے اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کے کارکنان نےمریدکے شہر میں عبدالجبار ’شہید‘ کے بینر لگائے اور جنازہ پر ’’تم کتنے جبارمارو گے، ہر گھر سے جبار نکلے گا۔‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1971ء کے انتخابات میں جب الیکشن سرگرمیاں عروج پر