کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 91
جنازہ کے بعد افضل چشتی نے دعا مانگی اورکہا: یا اللہ! مرحوم کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرما!حیرانگی ہے کہ اس کے لیے اس رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت طلب کی جارہی تھی کہ جن کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قانون کو سلمان تاثیر ’امتیازی قانون،غیر انسانی قانون اور کالا قانون‘ کہتے رہے۔اس جنازہ کی خاص بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم او راے این پی ایسی سیکولر جماعتوں کے علاوہ کسی بھی دینی، سیاسی جماعت کےکسی معمولی سے عہدیدار نےبھی شرکت نہیں کی۔ یہاں تک کہ گورنر ہاؤس میں ملازمت کرنے والا کوئی بھی شخص جنازے میں شامل نہیں ہوا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سلمان تاثیر کے تابوت سے اس قدر بدبو آرہی تھی کہ اس کے قریب کھڑا ہونا محال تھا۔ لہٰذا گورنر ہاؤس کی انتظامیہ نے فوری طور پر تابوت پر خالص عرق گلاب اور مختلف قیمتی پرفیومز کا سپرے کیا، لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہ پڑا۔
بعدازاں ہیلی کاپٹر کے ذریعے تابوت کیولری گراؤنڈ کے فوجی قبرستان میں لایاگیا، جہاں فوج او ررینجرز کی کڑی نگرانی میں سرکاری اعزاز کے ساتھ رسیوں کی مدد سے اُسے زمین میں اُتارا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ اگر گورنر سلمان تاثیر عوامی آدمی تھے اوراُنہوں نے گورنر ہاؤس کے دروازے عام لوگوں کے لیے بھی کھول دیئے تھے تو اُنہیں کسی عوامی قبرستان (میانی قبرستان وغیرہ) میں دفن کرنا چاہئے تھا۔کیولری قبرستان میں جانے کا عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ عوامی ردعمل کے پیش نظر اُنہیں کسی ایسے قبرستان میں دفن نہیں کیا گیا، جہاں عوام الناس کا داخلہ ہر وقت عام ہو۔ یاد رہے کہ جنر ل یحیی خاں کوبھی پورے سرکاری اعزازات کے ساتھ دفن کیاگیا تھا، جس نے پاکستان کو دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔باقی اُس کے کردارکے بارے میں ہر شخص بخوبی جانتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر کی عیسائی اور قادیانی کمیونٹی نے مقتول گورنر سلمان تاثیر کو اپنا ہیرو قرا ردیتے ہوئے پورے ملک کے سینکڑوں گرجا گھروں او رقادیانی عبادت گاہوں میں ان کے لیے پندرہ روز تک دعاؤں کو عبادت کا حصہ بنائے رکھا۔ گورنر کے لیے قادیانی جماعت کی طرف سے ایک بڑا ایوارڈ دینے کا اعلان