کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 90
ایک چہرہ بھی شناسا نہیں نکلا اُس کا
وہ جو کہتا تھا کہ میری سب سے شناسائی ہے!
اس صورتِ حال پر پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت بے حد پریشان ہوئی۔ لہٰذا اُنہوں نے فوری طور پر اپنی جماعت سے وابستہ ایک آزاد خیال مولوی افضل چشتی کو جنازے کے لیےبلایا۔ جنازے کے لیے ایک بجے دوپہر کا وقت مقرر کیاگیاتھا ،لیکن جیالوں کی ہلڑبازی، بدنظمی او رمست قلندر کی وجہ سے صفیں ترتیب دینے میں دقت ہورہی تھی۔ حکومت اور پیپلزپارٹی کے اعلیٰ عہدیدار وقفے وقفے سے جنازہ میں آرہے تھے تاکہ وہ ٹی وی چینلز پر دکھائی دے سکیں ۔ وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی تقریبا ڈیڑھ بجے کے قریب جنازہ میں شرکت کے لیے آئے تو جیالے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے ان پر مکھیوں کی طرح اُمڈ پڑے جس سے وہاں شدید بدنظمی پیدا ہوئی۔ان سب چیزوں سے بے نیاز ایک کونے میں وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان گورنر پنجاب بننے کی افواہ پر پیپلزپارٹی کے کارکنان سے بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملا رہے تھے۔سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال جنازے کے لیے جب گورنر ہاؤس پہنچے تو پیپلزپارٹی کے کارکنان نے نوازشریف کے خلاف شدید نعرے بازی شروع کردی۔ اس پر وہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کےکہنے پر وہاں سے واپس چلے گئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ، سینئر صوبائی وزیر راجہ ریاض احمد، پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر امتیاز صفدر وڑائچ ہنس ہنس کر کارکنان سے مل رہے تھے، جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ اُنہیں سلمان تاثیر کی موت کا کوئی دُکھ نہیں ہوا بلکہ وہ اس کی آڑ میں مخصوص سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اسی اثنا میں تقریبا ایک بج کر 52 منٹ پر سپیکر سے اچانک ’اللہ اکبر‘ کی آواز سنائی۔ جو جہاں کھڑا تھا، جس حالت میں تھا، فوراً ناف پرہاتھ باندھ لیے۔ پانچ سیکنڈ بعد دوسری تکبیر ’اللہ اکبر‘ ہوئی، چھ سیکنڈ بعد تیسری تکبیر اللہ اکبر او رپانچ سیکنڈ بعد چوتھی اللہ اکبر کے بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہہ دیا گیا۔ یعنی 15، 20 سیکنڈ میں نمازِ جنازہ پڑھا دیا گیا۔ یہ دنیا کا واحد جنازہ تھا کہ جس کے امام کا کچھ پتہ نہ تھا کہ وہ کہاں کھڑا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہےکہ امام کے آگے بھی تین صفیں تھیں ۔ اس نان سٹاپ