کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 9
ایک سے زیادہ رائے ہوسکتی ہیں ، اور شریعتِ اسلامیہ میں بھی یہی واحد حل نہیں ہے کہ کوئی مسلمان اُٹھ کر سلمان تاثیر کو قتل کردیتا۔ تاہم عدالت سے رجوع کرکے آسیہ مسیح یا سلمان تاثیر کو توہین رسالت کی سزا دلوانے کا مطالبہ کرنے والے لوگ بھی خیالوں اور واہموں کی جنت میں رہتے ہیں ۔ اوّل تو اُنہیں معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس قانون کی تاریخ نفاذ 1992ء سے اَب تک توہین رسالت کے 986 کیس درج ہوئے ہیں ، لیکن آج تک کسی کو توہین رسالت کی سزا نہیں ہوسکی۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کا ارتکاب ایسے ملعونوں کوکافرانہ قوتوں کی آنکھ کا تارا بنادیتا ہے، ان کو خصوصی پروٹوکول دیا جاتا اور کفر کا پورا طائفہ اپنا لاؤ لشکر لے کر اس کی حمایت میں کھڑا ہوجاتا ہے۔ایسے بدبختوں اور ان کے خاندانوں کوعیسائی مشنری ادارے اور مغربی این جی اوز سپانسر کرتے اور ان کے تحفظ کے لئےعالمی قوتوں کی مدد حاصل کرتے ہیں ۔جیسا کہ پوپ کے حالیہ بیانات، آسیہ کے لئے دعا اور پاکستان پر دباؤ اس ملاقات کا نتیجہ ہیں جو وزیر اقلیتی اُمور شہباز بھٹی نے براہ راست ویٹی کن میں جاکر لابنگ اور جوڑتوڑ کے نقطہ نظر سے کی۔ ہماری عدالتیں بھی آغاز میں تو ان کو سزا دے لیتی ہیں ، لیکن جونہی ان پر پریشر پڑتا ہے تو اعلیٰ عدالتوں کے لئے اپنے فیصلوں پر ڈٹے رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں 1994ء میں رحمت اور سلامت مسیح کا کیس بالکل واضح ہے، جن کو سیشن کورٹ سے سزائے موت کے بعد ہائیکورٹ میں اس کی اپیل کے مراحل اس سرعت سے طے کئے گئے اور اس کے فوراً بعد ان کو بیرونِ ملک جرمنی روانہ کردیا گیا کہ مزید کسی قانونی پیش قدمی کی گنجائش ہی باقی نہ رہی۔ جہاں تک سلمان تاثیر کی ممکنہ براہ ِ راست توہین رسالت اور اس کی سزا کا تعلق ہے تو یہ بھی یادر ہنا چاہئے کہ پاکستان کے دستور کی دفعہ 248 کی رو سے صدر، گورنر اور وزرا کو عدالتی باز پرس سےاستثنا حاصل ہے جو شریعت ِاسلامیہ کے سراسر خلاف ہے۔ جب اسلام کی مقدس ترین ہستی سید المرسلین محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی محبوب بیٹی سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا اور خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم کو عدالتی باز پرس سے کوئی استثنا حاصل نہیں تو پھر مسلمانوں کا ایک ذیلی حکمران کس بنا پر قانون سے بالا تر ہونے کا استحقاق حاصل کرتا ہے؟ دراصل امتناعِ توہین رسالت کا حقیقی قانون نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں کی اہم