کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 89
’’گورنر پنجاب نے قانون توہین رسالت کو ’ کالا قانون‘ قرار دیا تھا، ا س لیے گستاخِ رسول کی سزا موت ہے۔سلمان تاثیر گستاخِ رسول تھا، اس نے چونکہ قانون توہین رسالت کے تحت عدالت سےسزا پانے والی ملعونہ آسیہ مسیح کوبچانے کا عندیہ دے کر خود کو گستاخِ رسول ثابت کردیا تھا، اس پر میں نے اپنا فرض پورا کردیا۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :
’’اور اگر اللہ لوگوں میں بعض سے بعض کو دفع نہ کرے تو ضرور زمین پر فساد پیدا ہوجائے، مگر اللہ سب جہانوں پر فضل کرنے والا ہے۔‘‘ (البقرۃ:251)
اسی روز تمام مکاتب ِفکر کے 500 سے زائد جید علماے کرام نے یہ فیصلہ کیا کہ توہین رسالت کے جرم میں سزا یافتہ ملعونہ آسیہ مسیح کی حمایت کرنے اور قانونِ توہین رسالت کو ’کالا قانون‘ کہنے کے باعث سلمان تاثیر کی نمازِ جنازپڑھی جائے او رنہ ہی اس کا افسوس کیا جائے۔ کمشنر لاہور خسرو پرویز نے رات گئے بادشاہی مسجد کے خطیب عبدالخبیر آزاد کو فون کیا اورکہا کہ آپ نے کل ایک بجے سلمان تاثیر کا جنازہ پڑھانا ہے۔ مولانا عبدالخبیر آزاد کو حالات کی سنگینی کا احساس تھا۔ اُنہوں نے کمشنر لاہور سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ شہر سے باہر ہیں اور کل تک واپسی ناممکن ہے۔ لہٰذا ان کے لیے نمازِ جنازہ پڑھانا ممکن نہیں ہے۔بعد ازاں اعلیٰ انتظامیہ نے داتا دربار مسجد کے خطیب مولانا محمد رمضان سیالوی سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے اپنی بیماری کا کہہ کر جنازہ پڑھانے سے معذرت کرلی۔ اس کے بعد گورنرہاؤس کے اعلیٰ حکام نے گورنر ہاؤس کی مسجد کے خطیب قاری محمد اسماعیل سے رابطہ کیا اور اُنہیں دھمکی آمیز لہجے میں سلمان تاثیر کی نماز جنازہ پڑھانے کا حکم دیا۔ جناب قاری محمد اسماعیل نے نماز جنازہ پڑھانے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ مجھے ملازمت سے برخاست کرنا چاہیں تو میں اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوں ، مگر میں گستاخِ رسول سلمان تاثیر کا جنازہ نہیں پڑھا سکتا۔ چاروں طرف سے انکار کے بعد اعلیٰ انتظامیہ کی طرف سے نمازِ جنازہ کے لیے محکمہ اوقاف کے متعدد سرکاری علماے کرام سے رابطے کیے گئے مگر کسی نے حامی نہ بھری بلکہ اکثریت نے اپنے موبائل فون بند کرلیے: