کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 88
یونیورسٹی آف فیصل آباد سے ٹیکسٹائل انجینئرنگ میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے ، نیک بخت طالب علم صاحبزادہ عطاء الرسول مہاروی نے 16 نومبر 2009ء کو یونیورسٹی کے سالانہ کانووکیشن میں مہمانِ خصوصی گورنر پنجاب سلمان تاثیر سے احتجاجاً براؤنز میڈل وصول کرنے سے انکار کیا او رحقارت سے کہا کہ آپ نہ صرف گستاخانِ رسول کی سرپرستی کرتے ہیں ، بلکہ توہین رسالت ایکٹ 295سی کو ظالمانہ اور ختم کرنے کے بیانات بھی جاری کرتے ہیں ۔ اس طرح آپ بذاتِ خود توہین رسالت کےمرتکب ہوئے ہیں ، لہٰذا آپ سے میڈل وصول کرنا میں گناہ سمجھتا ہوں ۔
30 نومبر 2010ء کو ملک کے جید علماے کرام نے قانون توہین رسالت کو ’کالا قانون‘ کہنے اور ملعونہ آسیہ مسیح کی بے جا حمایت و سرپرستی کرنے پرسلمان تاثیر کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا۔ اسی دن پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی و سابق وفاقی وزیر اطلاعت و نشریات شیری رحمٰن نے قانون توہین رسالت کو ختم کرنے کا بل اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرایا۔اس سے اگلے روز صدر پاکستان آصف علی زرداری نے وفاقی وزیر اقلیتی اُمور شہبازبھٹی مسیح کی سربراہی میں اراکین اسمبلی پر مشتمل 9 رُکنی کمیٹی تشکیل دی جس نے قانونِ توہین رسالت کو ختم کرنے کے حوالے سے ایک ماہ کے اندر حکومت کو اپنی سفارشات پیش کرنی تھی ۔
4 جنوری 2010ء کو گورنر سلمان تاثیر کو ان کے سرکاری محافظ غازی ملک ممتاز حسین قادری نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ واقعات کے مطابق گورنر پنجاب، اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس ٹو کی کوہسار مارکیٹ میں واقع ایک مہنگے ریسٹورنٹ میں اپنے کاروباری دوست شیخ وقاص کے ساتھ کھانا کھا کر واپس اپنی گاڑی کی طرف آرہے تھے کہ ان کے سرکاری محافظ گن مین غازی ملک ممتاز حسین قادری نے ان پرگولیوں کی بوچھاڑ کردی جس پر وہ شدید زخمی ہوگئے۔ اُنہیں فوری طور پر پولیس کی گاڑی میں ڈال کر پولی کلینک لے جایا گیا، لیکن وہ راستے ہی میں دم توڑ گئے۔ غازی ملک ممتاز حسین قادری نے موقع پر خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔ گرفتاری کے وقت وہ حیران کن حد تک نہایت پرسکون اور مطمئن نظر آرہا تھا۔ اس نے ابتدائی تحقیقات میں اعتراف کیا کہ