کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 87
ہونے دیں گے۔پوپ نے ویٹی کن میں منعقدہ خصوصی دعائیہ تقریب میں آسیہ مسیح کی رہائی کے لیے نہ صرف اس کا نام لے کر دعا کرائی بلکہ صدرِ پاکستان سے بھی اپیل کی کہ اس کی سزا معاف کی جائے۔ اُنہوں نے حکومت ِپاکستان سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ قانون توہین رسالت کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
پوپ کے بیان کے بعد 20 نومبر 2010ء کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر عدالت سےمجرمہ قرار دی جانے والی خاتون سے ملنے کے لیے فوراً ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ پہنچے۔ جہاں اُنہوں نے سپرنٹنڈنٹ جیل شیخوپورہ کے وی آئی پی کمرہ میں آسیہ مسیح سے خصوصی ملاقات کی اور اُسے حکومتی سطح پر ہرممکن امداد کا یقین دلایا۔ وہ گورنر ہاؤس سے اپنے ساتھ آسیہ مسیح کو ملنے والی سزا کی معافی کی ٹائپ شدہ درخواست بھی ہمراہ لائے تھے۔ گورنر سلمان تاثیرنے میڈیا کی موجودگی میں آسیہ مسیح سے کہا کہ یہ آپ کی طرف سے تحریر کردہ درخو است ہے، آپ اس پر دستخط کردیں تاکہ میں بطورِ گورنر اس درخواست کوصدر آصف علی زرداری تک پہنچا کر سزا کی معافی ممکن بنوا سکوں ۔ سزا کی معافی کے بعد آپ کو یورپ کے کسی ملک میں بھجوا دیا جائے گا۔ اس موقع پر گورنر پنجاب نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملعونہ آسیہ مسیح کو معصوم قرار دیا او رکہا کہ دنیا کی کوئی طاقت آسیہ مسیح کوسزا نہیں دے سکتی۔ اُنہوں نے کہا کہ قانونِ توہین رسالت ایک ’امتیازی، غیر انسانی او رکالا قانون ‘ ہے جس کو ہر حالت میں ختم ہونا چاہئے۔
اس پریس کانفرنس کے ذریعے یورپی ممالک کو یہ پیغام بھی دیا گیا کہ حکومت آسیہ مسیح کو سزا دینے کے حق میں نہیں ہے اور حکومت ایسے تمام قوانین کو بھی ختم کردے گی جواقلیتوں کی ’آزادئ اظہار‘ کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ معتبر ذرائع کے مطابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے ایڈیشنل سیشن جج جناب محمد نوید اقبال ، جنہوں نے شانِ رسالت میں گستاخی کا جرم ثابت ہونے پر آسیہ مسیح کو سزائے موت سنائی تھی، کو ٹیلی فون کیا او رنہایت غلیظ زبان استعمال کی۔ اس کے بعد وہ آئے روز مختلف ٹی وی چینلز پر برملا کہتے رہے کہ قانون توہین رسالت ضیاء الحق کے دور میں انسانوں کا بنایا ہوا ’کالا قانون‘ ہے، اس کے رد عمل میں دی