کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 86
ایڈووکیٹ اورمنظور قادر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، جبکہ استغاثہ کی طرف سے میاں ذوالفقار علی ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ تقریباً ڈیڑھ سال تک اس مقدمہ کی سماعت ہوتی رہی۔ 8 نومبر 2010ء کو اس مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج نے جرم ثابت ہونے پر ملزمہ آسیہ مسیح کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295سی کے تحت سزائے موت کامستحق قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھا :
’’یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس گاؤں میں عیسائی حضرات کی ایک کثیر تعداد مسلمانوں کے ساتھ کئی نسلوں سے آباد ہے۔ لیکن ماضی میں اس قسم کا کبھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ مسلمان اور عیسائی دونوں ایک دوسرے کے مذہبی جذبات اور اعتقادات کے سلسلے میں برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کرتے آ رہے ہیں ۔ اگر توہین رسالت کا اس قسم کا کوئی واقعہ پہلے کبھی اس گاؤں میں پیش آیا ہوتا، تو یقیناً فوجداری مقدمات اور مذہبی جھگڑے اس گاؤں میں پہلے سے موجود ہوتے۔لہٰذا اس دفعہ یقیناً توہین رسالت کا ارتکاب ہوا ہے۔ جس کے باعث مقدمہ درج ہوا اور عوامی اجتماع منعقد ہوا اور یہ معاملہ اس قصبے اور اِرد گرد میں موضوعِ بحث بن گیا۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا کہ نہ تو ملزمہ خاتون نے اپنی صفائی میں کوئی شہادت پیش کی، اور نہ ہی دفعہ (2)340، ضابطہ فوجداری کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات غلط ثابت کئے۔مندرجہ بالا بحث کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ استغاثہ نے اس مقدمہ کو کسی شک و شبہ سے بالاتر ثابت کردیا ہے۔تمام استغاثہ گواہان نے استغاثہ کے موقف کی متفقہ اور مدلل اندازمیں تائید و تصدیق کی ہے۔استغاثہ گواہان او رملزمہ، اُن کے بزرگوں ، یا ان کے خاندانوں میں کسی دشمنی کا وجود نہیں پایا جاسکا۔ لہٰذا ملزمہ خاتون کوناجائز طور پر اس مقدمہ میں ملوث کیے جانے کا قطعاً کوئی امکان نہیں ۔ملزمہ کو اس مقدمہ میں کوئی رعایت دیئے جانے کا بھی کوئی جواز موجود نہیں ۔لہٰذا میں ملزمہ آسیہ بی بی زوجہ عاشق کو زیر دفعہ 295سی تعزیراتِ پاکستان، موت کی سزا کا مجرم ٹھہراتا ہوں ۔‘‘
اس فیصلہ کے خلاف دنیابھر کی سیکولر لابیاں ، نام نہاد ’انسانی حقوق‘ کی تنظیمیں اور عیسائی نمائندے میدان میں آگئے۔ عیسائی پوپ بینڈکٹ نے آسیہ ملعونہ کے دفاع میں احتجاج کرتے ہوئے اس فیصلہ کی مذمت کی او رکہا کہ وہ ایسے کسی فیصلے پر عمل درآمد نہیں