کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 85
حقائق وعبر محمد نوید شاہین ایڈووکیٹ ہائیکورٹ گورنر کا جنازہ :عبرت آموز حقائق 14 جون 2009ء کو ضلع ننکانہ کے ایک نواحی گاؤں اِٹانوالی میں عیسائی مذہب کی مبلغہ آسیہ مسیح نے قرآنِ مجید اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نہایت نازیبا، دل آزار اور گستاخانہ کلمات کہے جن کو دہرانے کی میرا قلم اجازت نہیں دیتا۔ آسیہ مسیح کے شوہر عاشق مسیح نے فوری طور پر وفاقی وزیر اقلیتی اُمور شہباز بھٹی سے رابطہ کیا جن کی مداخلت پر کئی دن تک ملزمہ کے خلاف پرچہ درج نہ ہوسکا۔ وفاقی وزیر کی اس حرکت سے علاقہ بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔بالآخر 19جون 2009ء کو آسیہ مسیح کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295سی کے تحت ایف آئی آر نمبر 326 درج کرلی گئی اورملزمہ کو گرفتار کرکے حفاظتی اقدام کے طور پر ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ بھیج دیا گیا ۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کیس کی تفتیش پنجاب پولیس میں نیک نامی اور دیانت داری کی مثالی شہرت رکھنے والے جناب سید محمد امین بخاری ایس پی شیخوپورہ نے کی، جنہوں نے 26 جون 2009ء کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت آسیہ مسیح کا بیان ریکارڈ کیا اور نہایت جانفشانی ، غیر جانبداری اور شفاف طریقے سے اس کیس کے تمام پہلوؤں کی مکمل تفتیش کرتے ہوئے آسیہ مسیح کو واقعی ملزمہ قرار دیا او راپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’’ملزمہ آسیہ مسیح کا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اور قرآنِ مجید کے متعلق گستاخانہ باتیں کرنا قانونی طور پر ثابت ہوچکا ہے۔ ملزمہ نے یہ تمام باتیں نہ صرف تسلیم کیں ہیں بلکہ اپنی غلطی کی معافی بھی مانگی ہے۔‘‘ اس مقدمہ کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج ننکانہ صاحب، جناب محمد نوید اقبال کی عدالت میں ہوئی۔ملزمہ کی طرف سے اکبر منور درّانی ایڈووکیٹ، طاہر گل صادق ایڈووکیٹ، چوہدری ناصر انجم ایڈووکیٹ،جسٹن گل ایڈووکیٹ، طاہربشیر ایڈووکیٹ، ایرک جون