کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 84
علم ہے کہ آسیہ جیسی کئی عورتیں اور کئی سو مرد ایسے ہیں جنہیں خاندانی دشمنی اور ریاستی مشینری کی بددیانتی کی وجہ سے آج بھی ایسی سزاؤں کا سامنا ہے ۔ لیکن تمسخر اُڑانے کے لئے، اسلام کی تضحیک کرنے کے لیے میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے جو ان روشن خیالوں کوملتی ہے ۔ سزا معاف کروانے کے دعوے کرنے والے گورنر کو شاید لطف آتا ہے کہ ہم نے اس حوالے سے لوگوں سے سید الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت چھین لی ہے ۔ اُنہیں شاید علم نہیں کہ اس بہانے وہ قانون کا مذاق نہیں بلکہ اللہ کی اس محبت کا تمسخر اُڑاتے ہیں جو وہ میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے ۔ اس سے صرف اس کے غضب اور عذاب کو دعوت دی جاتی ہے ۔ آسیہ شاید توہین کی مرتکب ہو نہ ہو، اس کو اسلام سے بغض کی وجہ سے میڈیا ایشو بنانے والے ضرور توہین کے مرتکب ہیں اور اس جرم کی سزا۲۹۵سی نہیں ، اللہ خود دیتا ہے ۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بازار سے گزر رہے تھے تو مکہ کے لوگوں نے اشارہ بازی شروع کی اور کہا یہ شخص کہتا ہے کہ اس کے پاس جبرائیل علیہ السلام آتا ہے (نعوذ باللہ)۔ جبرائیل علیہ السلام خود تشریف لائے اور ان لوگوں کی جانب انگلی سے اشارہ کیا تو ان کے جسموں سے خون بہنے لگا اور ایسی بدبو آئی کہ کوئی ان کے قریب نہ جاتا۔ قبیلہ بنو نجار کا ایک شخص مسلمان ہوا، کاتب ِوحی مقرر ہوا، پھر نصرانی ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اُڑاتا کہ میں نے وحی میں بہت باتیں شامل کیں جن کا اُنہیں پتہ نہ چلا۔ کچھ دنوں بعد اس کی گردن ٹوٹ گئی۔ لوگوں نے دفن کیا، لاش کو زمین نے قبول نہ کیا، صبح باہر پڑی تھی۔ اگلی صبح اور نیچے دفن کیا پھر ایسا ہوا، پھر کیا آخر لاش ویرانے میں پھینک دی گئی۔جوکوئی جس نیت سے ایسے معاملات کو اُچھال رہا ہے ، اس کا حال اللہ جانتا ہے اور مقدمہ وہاں درج ہو چکا ہے ۔ بس عذاب کا انتظار کرو کہ اس کی پکڑبہت شدید ہے!! [سلمان تاثیر کے قتل سے چند روزپہلے قومی اخبارات میں شائع ہونیوالی ایمان افروز تحریر]