کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 83
سزائے موت بھی ہو جاتی ہے ۔ ایسی حرکتیں کسی سے دشمنی نبھانے کے لیے بھی کی جاتی ہیں ۔ یہاں بھی پولیس کا ’رزق‘ چلتا ہے اور وکیلوں کا دھندا بھی۔ لیکن کسی نے آواز بلند نہیں کی کہ انسدادِ منشیات کے کالے قانون کو ختم کرو، اس لیے کہ اس کی وجہ سے بے گناہ لوگ تختہ دار پر پہنچ رہے ہیں !!
پاکستان کا ضابطہ فوجداری پولیس کو تفتیش کا اختیار دیتا ہے اور ایک طریقہ بتاتا ہے ۔ ایف آئی آر درج ہوتے ہی گرفتار کرلو۔ ناقابل ضمانت جرم ہو تو ملزم بے گناہ ہی کیوں نہ ہو کئی سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے پڑا سڑتا رہتا ہے ۔ تفتیشی افسر رشوت سے ، بددیانتی سے یا سیاسی دباؤ سے جس طرح کا کیس بنائے، جس کو چاہے ملوث کرے ۔ اور مظلوم بے چارہ روزِ اوّل یعنی ایف آئی آر کے درج ہونے کے دن سے تھانوں ، حوالاتوں اور جیلوں میں تشدد برداشت کرنا،ظلم سہنا اور اپنی قسمت کو کوستا رہتا ہے۔
لیکن آج تک کسی انسانی حقوق کے ترجمان، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ یا ڈسٹرکٹ بار کے صدر نے چیخ چیخ کر یہ اعلان نہیں کیا،یہ مطالبہ نہیں دہرایاکہ قتل، اقدامِ قتل،دہشت گردی یا منشیات وغیرہ کے مقدمات اس وقت تک نہ رجسٹر کئے جائیں ۔ ایس ایچ او ایف آئی آر نہ کاٹے جب تک عدالت اس کی تحقیق نہ کرلے کہ کسی کو غلط طور پر دشمنی کی بنیاد پر یا سیاسی دباؤ کی وجہ سے ملوث تو نہیں کیا گیا۔ ایسا سب کچھ اس ملک میں سالوں سے ہوتا آ رہا ہے ۔ تھانے، کچہریاں ، عدالتیں اور وکیلوں کے دفاتر اسی طرح آباد ہیں اور روز بے گناہ لوگ تعصب، دشمنی، سیاسی چپقلش اور غنڈہ گردی کی وجہ سے تختہ دار پر بھی لٹکتے ہیں اور لمبی جیلیں بھی کاٹتے ہیں ۔ کوئی ان کے دُکھ میں نہیں روتا، ان کا درد بیان نہیں کرتا۔ کسی جاوید غامدی یا عاصمہ جہانگیر کو اس گلے سڑے اور بدبودار انگریز کے نافذ کردہ اینگلوسیکسن قانون کی ان مسلسل نا انصافیوں پر احتجاج کی توفیق نہیں ہوتی!!
البتہ جیسے ہی معاملہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت اور اس کی عزت و توقیر کا آ جائے تو یہ ساری زبانیں کھل جاتی ہیں ۔ یہ اس اُمت کی آخری متاع عزیز ہے ۔ گناہگار ہو، عصیاں میں لتھڑا ہو لیکن اس اُمت کا سادا سا مسلمان سیدالانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرتا۔ میں آسیہ کے کیس کے مندرجات اور تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔ لیکن مجھے اتنا