کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 82
اجت وغیرہ کر سکے، کیونکہ وہ اُٹھنے سے معذور ہو چکا تھا۔ ایک دن اُس نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور کہا: میں مر تو رہا ہوں میری موت سے فائدہ اُٹھاؤ۔ بیٹوں نے حیرت سے پوچھا: وہ کیسے ؟ کہنے لگا: مجھے ڈیرے پر لے جاؤ، وہاں دو تین دن رکھو، پھر مجھے قتل کرو اور دشمنوں پر پرچہ درج کروادو۔ بیٹوں نے ایسا ہی کیا۔ پرچہ درج ہوا، موقع کے جھوٹے گواہ خدا کو حاضر و ناظر جان کر عدالتوں میں بیان دیتے رہے اور بے گناہ پھانسیوں پر جھول گئے ۔ ایسے واقعات ہر صوبے، ضلع اور شہر میں روزانہ ہوتے ہیں ۔ سارے شہر کو علم ہوتا ہے کہ یہ بے گناہ پھانسی پر جھولنے جا رہے ہیں ۔ لیکن جھوٹی گواہیوں اور پولیس کے بہیمانہ تشدد کے نتیجے میں یہ سب ہورہا ہوتا ہے اور گذشتہ ایک صدی سے ہوتا آ رہا ہے ۔ لوگ موت کی آغوش میں جاتے ہیں اور پولیس اور وکیلوں کے رزق کا سامان مہیا ہوتا رہتا ہے ۔ یہ سب ظلم و بربریت ہر کسی کے علم میں ہے لیکن آج تک کوئی انسانی حقوق کا علمبردار، کوئی سپریم کورٹ،ہائی کورٹ یا ڈسٹرکٹ بار کا صدر غصے میں آنکھیں لال کر کے، بینر اُٹھا کر، جلوس نکالتے ہوئے یا میڈیا کے سامنے گرجتے ہوئے یہ نہیں بولا کہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۳۰۲ کو ختم کیا جائے ۔ یہ ظلم ہے، اس سے بے گناہ لوگوں کو پھانسیاں ہوتی ہیں ۔ جو عدالت میں پھانسی سی بچ جاتا ہے، اُسے گھات میں بیٹھے دشمن مار دیتے ہیں ۔ گذشتہ ۶۲ سال کی تاریخ میں کسی انسانی حقوق کی انجمن کونہ یہ بے گناہ لوگ یاد آئے اور نہ ہی تعزیراتِ پاکستان کا’ کالا قانون‘ دفعہ ۳۰۲۔ تعزیراتِ پاکستان کی اس دفعہ کے علاوہ انسداد ِمنشیات کے بھی سخت قوانین اس ملک میں رائج ہیں ۔ ان قوانین کا معاملہ عجیب ہے ۔ جو بڑے بڑے منشیات کے سمگلر اور اڈے چلانے والے ہیں ، سب کے سب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ملی بھگت سے اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں اور کارکردگی دکھانے کے لیے کسی بھی معصوم کی کار میں یا اُس کے سامان میں دھوکہ دہی سے منشیات رکھ کر پکڑوایا جاتا ہے، یہاں تک کہ حج پر جانے والے معصوم حاجیوں کوبھی فریب سے مال دیا جاتا ہے۔ اس سارے دھندے میں بعض دفعہ ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے پولیس عام لوگوں کی جیب میں ہیروئن کی پڑیاں اور چرس کے پتے رکھ کر پکڑتی ہے اور ایسا مضبوط کیس بنایا جاتا ہے کہ اُنہیں لمبی قید اور کبھی کبھی