کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 81
حقائق وعبر اوریا مقبول جان
اللہ کے ہاں مقدمہ درج ہو چکا ہے!
اس ملک کے تھانوں میں روزانہ ایسی ہزاروں ایف آئی آر درج ہوتی ہیں جن میں مقتول کے ورثا کتنے بے گنا ہوں کانام درج کرواتے ہیں ، اُنہیں قتل میں ملوث کرتے ہیں ، ان کے خلاف موقع کے جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں ۔ ملک کے مہنگے ترین وکیلوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ۔ ہو سکتا ہے ، ان میں ایسے وکیل بھی شامل ہوں جو انسانی حقوق کے علمبردار بھی ہوں ۔ یہ وکیل اپنے مؤکل کی اس خواہش کا احترام کرتے ہوئے کہ اس کے زیادہ سے زیادہ دشمنوں کو پھانسی گھاٹ کا منہ دیکھنا پڑے، اُن کو ہزاروں داؤ پیچ سے گواہ کھڑے کرنے، خاص طریقے سے بیان دینے اور بیان میں مخصوص الفاظ بولنے کی ترغیب بھی دیتے ہیں ۔
ایسے مقدمات روزانہ عدالتوں میں چالان ہو کر جاتے ہیں جن میں بے گناہوں کی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے ۔ پھر اس دن اس کامیاب وکیل کا چمکتا دمکتا چہرہ دیکھنے کے قابل ہوتا ہے جب وہ ایک یا ایک سے زیادہ بےگنا ہوں کو پھانسی کی کوٹھڑی تک پہنچا آتا ہے ۔ قتل کے مقدموں میں میرے ملک میں یہ رواج عام ہے ۔ اس عام رواج کی گواہی پنجاب ہائی کورٹ کا چالیس کی دہائی کا وہ فیصلہ ہے جس میں ججوں نے کہا ہے کہ اس خطے کے لوگوں کا نزعی یعنی عین مرتے وقت ریکارڈ کئے جانے والے بیان پربھی یقین نہ کرو۔ کیونکہ یہ موت کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی جھوٹ بول کر اپنے بے گناہ دشمنوں کے نام قاتلوں کی فہرست میں شامل کرواتے ہیں ۔
میرے شہر گجرات کے ایک گاؤں کا مشہور واقعہ ہے کہ دو خاندانوں کی دشمنی مدتوں سے چل رہی تھی، کئی قتل ہو چکے تھے ۔ ان میں سے ایک خاندان کابوڑھا شخص اس قدر ضعیف اور کمزور ہو گیا تھاکہ گھر والوں نے اس کی چارپائی کے بیچ سوراخ کر دیا تھا تاکہ رفع ح