کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 80
یومِ رحلت کے لئے ہے تو خود ہی اپنے عمل کی سنگینی پر غور فرمالیں ۔
’’یہ اُمت روایات میں کھوگئی!‘‘
یہ بات واضح ہے کہ عوام الناس اپنے آباء اَجداد او رنام نہاد ’مولویوں ‘کو دیکھتے سنتے ہوئے یہ سب کچھ کرتے ہیں مگر ان کی غلطی اور کوتاہی یہ ہے کہ دین کے معاملات کو کم اہم سمجھتے ہوئے اُن میں خود سمجھ پیدا نہیں کرتے اور کچھ نہیں تو اُنہیں علمائے حق سے ہی راہنمائی لے لینی چاہئے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت اور عقیدت کے اظہار کے لئے ہی یہ سب کچھ کرتے ہیں مگر ... اظہارِ عقیدت و محبت کے لئے ہمارے سامنےکتاب و سنت او راُسوہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہونا چاہئے نہ کہ مروّجہ رسوم و رواج!
کتاب و سنت اور اُسوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روشنی میں حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی تقاضے پورے کرنے کے لئے ہمارے سامنے واضح احکام اور ہدایات ہیں جن پرپورا اُترنے سے ہی حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ اظہار ہوسکتا ہے۔جس بات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع فرمائیں ، ہم رک جائیں او رجس کام کو کرنے کا حکم دیں ، پوری رضا و رغبت سے اس پر عمل پیرا ہوں ، یہی ہمارے دین کا مطالبہ ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں اتباع رسول کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور اتباع سے مراد یہ ہے کہ اطاعت سے آگے بڑھ کر رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہر معاملے میں اتباع اور پیروی کو اختیارکیا جائے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند و ناپسند کو اپنی پسند اورناپسند بنا لینا۔
آپ سے محبت کا ایک طریقہ یہ بھی ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مسنون طریقے سے مسنون الفاظ میں زیادہ سے زیادہ درود و سلام پڑھا جائے۔اذان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مقامِ وسیلہ کی دعا کی جائے ۔اس کے لئے مسنون دعا کو ہی اختیار کیا جائے او راللہ تعالیٰٰ سے اُمید رکھی جائے کہ وہ روزِ قیامت ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائیں گے۔