کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 78
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباعِ کامل کا عہد و اقرار کریں تو اللہ رب العزّت کی اس نعمتِ عظمی کا کچھ حق ادا ہوسکتا ہے۔
کسی بھی عمل کو بطورِ ایک شرعی فریضے کے ادا کرنے کے لئے ہمارے پاس دو بنیادیں ہوتی ہیں :قرآن کریم اور سنت مطہرہ میں اس کے بارے میں شرعی حکم ۔جس کے بارے میں دورِ نبوی اور خلافتِ راشدہ کے دور کے بعد ہمیشہ سے اُمتِ مسلمہ کا اجتماعی عمل بھی ہمارے شوقِ عمل کو مہمیز دیتا ہے۔
عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ہم قرآن و سنت میں غور کریں تو واضح نظر آتا ہے کہ اَحادیث میں ہمیشہ ’عیدین‘یعنی دو عیدوں کے احکام اور تفاصیل ہی ملتی ہیں نہ کہ تین عیدوں کی۔رہ گیا اُمت کا تعامل تو سب سے پہلے ان میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت کا نمبر ہے ، دوسرے نمبر پر تابعین کا او رپھر تبع تابعین کا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں فرمایا ہے:
’’ سب سے بہترین میرا زمانہ ہے پھر اس کے ساتھ کا او رپھر اس کے ساتھ کا۔‘‘
(صحیح بخاری:2651)
اگر ہم ان تینوں ادوار کو دیکھیں تو ان پاکیزہ نفوس نے بارہ ربیع الاوّل کےحوالے سے ہمارے لئے کوئی نمونہ قائم نہیں کیا۔ ہمارے لئے ان اَدوار کے صالحین کا عملی نمونہ بن سکتا ہے،کیونکہ انہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین قرار دیا۔پھر بعد کے اَدوار میں دین پر عمل کے حوالے سے لوگوں میں ویسی پابندی اوراہتمام نہ رہا، اس لئے بعد کے لوگوں کا عمل ہمارے لئے حجت نہیں ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ میلاد کے سلسلے میں ایک تاریخی پہلو سے بھی جائزہ لیں ۔مسلمانوں میں معروف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم 22/اپریل 571ء میں بروز سوموار پیدا ہوئے۔ جبکہ اسلامی مہینے کے لحاظ بارہ ربیع الاوّل عام الفیل کے اگلے سال بروز سوموار صبح کو پیدا ہوئے۔
محققین کی تحقیق کے مطابق 22/اپریل 571ء ، 12 ربیع الاوّل سن1 ہجری عام الفیل میں پیر کا دن نہیں بنتا بلکہ جمعرات کا دن بنتا ہے۔پیر کا دن 9 ربیع الاوّل میں پڑتا ہے۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یوم پیدائش 9 ربیع الاوّل ہے، نہ کہ 12ربیع الاوّل۔ یہ تحقیق سیرتِ نبوی