کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 77
آگے نہ بڑھ سکے۔صد حیرت اور افسوس ہے ہم پر کہ بارہ ربیع الاوّل کو ہماری یہ کیفیت کیوں نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ پیدائش کی خوشی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ وصال کو ہم قطعاً بھول جاتے ہیں ۔ قارئین!اگر ایسا ہو کہ ہمارا کوئی بہت ہی پیارا عزیز اسی تاریخ پرفوت ہوجائے جس تاریخ پر وہ پیدا ہوا تو آپ دل پر ہاتھ رکھ کر انصاف سے بتائیے کہ کیا اس تاریخ کو پیدائش کی خوشیاں منائیں گے یا وفات کا غم ! جس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، کسی کو کامل ادراک نہیں تھا کہ کیسی ہستی دنیا میں تشریف لائی، لیکن اپنی بے مثال زندگی گزار کر جب آپ 63سال کے بعد وفات پاتے ہیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سارے عرب کو اندازہ تھا کہ کون سی ہستی ہم سے جدا ہوگئی ہے۔ اسی لئے ان کے غم و اَندوہ کی یہ کیفیت تھی کہ جیسے اُن پر پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔ ہم اگر چند دہائیاں پیچھے کو جائیں تو بہت سے لوگوں کو یاد ہوگا کہ ہمارے ہاں بارہ ربیع الاوّل کو بارہ وفات کا نام دیا جاتاتھا اور اس دن لوگوں کے احساسات و جذبات افسردہ اور اُداس ہوتے تھے۔ اس دن ان کی سرگرمیاں ایسے ہی جذبات کی عکاسی کرتیں ۔ نجانے کس روشن خیالی کے تحت ایسی سب سوچوں پر پہرہ لگا دیا گیا او راس کو صرف اور صرف خوشیوں اور مسرتوں کا ایک ایسا موقع سمجھ لیا گیا کہ ’عید‘سے کم کسی نام پر اطمینان ہی نہیں ۔ حالانکہ ایسی مذہبی ، ملی او راجتماعی خوشیوں کے مواقع مقرر کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے اور ان دو ہستیوں نے ہمارے لئے سال بھر میں دو عیدیں مقرر فرمائیں : عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ۔ عیدین کے فلسفہ پر غور کریں تو واضح ہوتا ہے کہ دونوں عیدوں کے ساتھ اسلام کے دو بنیادی فرائض وابستہ ہیں :رمضان اور حج،او ران کی ادائیگی کی خوشی اور شکرانے میں اللہ تعالیٰ ہمیں مسرت کا ایک موقع فراہم کرتے ہیں کہ اللہ کے بندوں نے اللہ کی رضا پانے کے لئے اللہ کے عائد کردہ فرائض بجا لانے میں محنت کی۔ آخرت میں اللہ نے حسن قبولیت کا پروانہ دیا اور دنیا میں اجتماعی ملّی خوشی کا دن مقرر کردیا۔ عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا کوئی فریضہ وابستہ نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ رب العزّت کا بے پایاں کرم ہے کہ اس نے ہمیں امام الانبیاء رحمۃ للعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نوازا۔اس موقع پر اللہ کا شکر ادا کریں اور محمد