کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 75
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بیگم عطیہ انعام الٰہی
بارہ ربیع الاوّل،غور و فکر کے چند پہلو!
ربیع الاوّل کے بابرکت مہینے میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے۔ مشیتِ الٰہی کے تحت اس دنیا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی بھی اسی ماہ میں ہوئی۔ یہ صرف ایک اتفاق ہی نہیں بلکہ ربُ العزّت کی طرف سے ہم مسلمانوں کا ایک خاص قسم کا امتحان بھی ہے۔ اس امتحان کی اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے، جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ کی پیدائش کا دن اور آپ کا یومِ رحلت بھی ایک ہی یعنی بارہ ربیع الاوّل ہے۔ ہم اس وقت ایک عجیب قسم کے دوراہے پر کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ہم آج کے دن آپ کی پیدائش کی خوشی منائیں یا آپ کی وفات کا دُکھ اور صدمہ!
ایک بارہ ربیع الاوّل وہ تھا جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے۔بے شک اس موقع پر کئی بابرکت اُمور ظاہر ہوئے مگر کلی طور پر کوئی بھی اس بات کا اِحاطہ نہیں کرسکتا تھا کہ یہ پیدا ہونے والی ہستی کون ہے اور انسانیت کے کس اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے والی ہے، کیونکہ مستقبل کا کامل علم اللہ کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ۔
پھر درجہ بدرجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عمر مبارک کی منازل طے کرتے گئے حتیٰ کہ عمر عزیز کے چالیسویں سال آپ کو مقامِ نبوت سے سرفراز فرمایا گیا اور دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا اصل مشن آپ کے سپرد کیا گیا۔ یہ مشن تھا بھٹکی ہوئی انسانیت کو اس کے خالق سے ملانا اور اس کی عبادت اور اِطاعت کے ذریعے اسی کے ساتھ وابستہ کرنا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشن کو توفیقِ ایزدی کے ساتھ اس شان سے کمال تک پہنچایا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے گواہی دی کہ آپ نے اپنا فرض کماحقہ پورا کردیا۔ حج کے انہی ایام میں ،منیٰ میں ہی سورۃ النصر نازل