کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 71
آسیہ ملعونہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پرحملہ کیا اور عدالت نے اسے موت کی سزا سنادی تو ایک طوفانِ بدتمیزی بپا ہوگیا۔ قانون ناموس رسالت کو ختم کروانے کے لئے انگریز کے وفادار نام نہاد مسلمان میدان عمل میں آگئے۔اسی طرح ایک نام نہاد سکالر جاوید غامدی نے یہ شوشہ پھیلانے کی کوشش کی کہ فقہائے احناف کے نزدیک گستاخِ رسول کی سزا موت نہیں ، لہٰذا 295سی، کو ختم کردیا جائے، اس شخص کا مقصد اُمتِ مسلمہ میں افتراق و انتشار کی فضا پیدا کرنا ہے۔اُمت ِمسلمہ کو ایسے اشخاص کے گھناؤنے کردار سے خبردار رہنا چاہئے۔ گستاخِ رسول کی سزا کے حوالے سے احناف کے جلیل القدر علما کی آرا ملاحظہ فرمائیے: 1 امام محقق ابن الہمام علیہ الرحمہ کل من أبغض رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بقلبه کان مرتدًا فالساب بطریق أولى ثم یقتل حدًا عندنا فلا تقبل توبته في إسقاط القتل.... وإن سبّ سکران ولا یعفی عنه [1] ’’ہر وہ شخص جو دل میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھے، وہ مرتد ہے اور آپ کو سب و شتم کرنے والا تو بدرجہ اولیٰ مرتد ہے اسےقتل کیا جائے گا۔ قتل کے ساقط کرنے میں اسکی توبہ قبول نہیں ۔ اگرچہ حالت ِنشہ میں کلمہ گستاخی بکا ہو ، جب بھی معافی نہیں دی جائے گی۔‘‘ 2 علامہ زین الدین ابن نجیم علیہ الرحمہ کل کافر فتوبته مقبولة في الدنیا والآخرة إلا جماعة الکافر بسب النبي وبسبّ الشیخین أو إحداهما.... لا تصح الردة السکران إلا الردة بسب النبي ولا یعفی عنه.... وإذا مات أو قتل لم یدفن في مقابر المسلمین، ولا أهل ملته وإنما یلقی في حفیرة کالکلب [2] ’’ہر قسم کے کافر کی توبہ دنیا و آخرت میں مقبول ہے، مگر ایسے کفار جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا شیخین میں سے کسی کو گالی دی تو اُس کی توبہ قبول نہیں ۔ ایسے ہی نشہ کی حالت میں ارتداد کو صحیح نہ مانا جائے گا مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت حالتِ نشہ میں بھی کی
[1] فتح القدیر: 5 /332 [2] الاشباه والنظائر: 158،159