کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 7
کیاسلمان تاثیر نے ایک قانون کوہی ’کالا قانون‘ قرار دیا تھا؟
اخبارات میں سیکولر دانشور اور ٹی وی کے اینکر پرسن بڑی تکرار سے یہ بات دہرا رہے ہیں کہ سلمان تاثیر نے کالا قانون تو محض ایک پاکستانی قانون کو قرار دیا تھا، شریعت اسلامیہ کو تو نعوذ باللہ کالا قانون نہیں کہا تھا۔
سلمان تاثیر کا قانون توہین رسالت کے بارے جو رویہ تھا، اور آسیہ مسیح کی صفائی کے بارے جو موقف تھا، وہ اخبارت میں تکرار سے شائع ہوتا رہا ہے۔ ان کی رو سے سلمان نہ صرف اس قانون کو ’کالا قانون‘ قرار دیتے رہے بلکہ علماے کرام کے بارے میں بھی یہ کہتے کہ ’’میں ان کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں ، ان کے فتووں کی ذرہ بھر پروا نہیں کرتا اور جو کہتا ہوں ، اس پر دلی ایمان رکھتا ہوں ۔‘‘سلمان تاثیر نے آسیہ مسیح کی بریت کے بارے میں 20 نومبر کو شیخوپورہ جیل میں کی جانے والی پریس کانفرنس میں توہین رسالت کے قانون کو تکرار کے ساتھ ’ظالمانہ قانون‘ بھی قرار دیا۔ان ہفوات کے بارے میں یہ نکتہ طرازی کرنا کہ یہ شریعت ِاسلامیہ کی توہین نہیں ، بلکہ چند انسانوں کے بنائے ہوئے قانون کی توہین ہے، جس کی سنگین سزا نہیں ہوسکتی، ایک عذرِ لنگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔اوّل تو یہ پارلیمنٹ کی توہین ہے جس کا موقف جمہوری دعویٰ کے مطابق عوام الناس کی رائے سمجھا جاتا ہے۔ ان بیانات میں عوامی رائے کی تذلیل پائی جاتی ہے۔ یہ اس دستور اور قانون کی بھی توہین ہےجس کی پاسداری اور احترام کا حلف اٹھا کرہی گورنر جیسے اہم منصب پر فائز ہوا جاسکتا ہے۔گورنر جو کسی صوبے کا آئینی سربراہ ہے، وہ ملک کے نظام عدل کا محافظ ہوتا ہے۔ اگر وہ اس اہم منصب پر بیٹھ کر پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین اور نظامِ عدل کی توہین شروع کردے تو اس سے عوام میں کیسی قانون پسندی کو رواج ملے گا؟ جہاں تک 295 سی میں درج قانون توہین رسالت کی بات ہے جو صرف تین سطروں پر مشتمل ہے، تو یہ کوئی انسانی قانون نہیں بلکہ قرآن وسنت کا براہِ راست تقاضا اورشریعت کے عین مطابق ہے۔ اس کی اصلاح پہلے وفاقی شرعی عدالت کے فاضل جج صاحبان نےملک بھر کے جید علما ے کرام کی تفصیلی معاونت سے کی،پھرپاکستان کے دونوں ایوانوں نے 1992ء میں متفقہ منظوری دے کر اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔قانونِ امتناع توہین رسالت کا متن حسب ِذیل ہے: