کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 67
عن مذهبنا وهو ثبت فيقبل [1]
’’اُصولِ حنفیہ میں سے یہ ہے کہ احناف میں بھاری آلہ سے قتل پر یا قُبل کے علاوہ کسی جگہ میں جماع کرنے پر سزاے قتل ضروری نہیں ۔ تاہم جب یہ فعل تکرار سے ہوں تو حاکم اس کے فاعل کو قتل کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے او رحاکم کو یہ صلاحیت بھی حاصل ہے کہ مصلحت ِعامہ کا لحاظ کرتے ہوئے متعین حد پر سزا کا اضافہ بھی کرسکتا ہے۔اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم او رآپ کے صحابہ کرام کا اس جیسے جرائم میں عوامی مصلحت کو ملحوظ رکھتے ہوئے قتل کی سزا کا فیصلہ کرنا ہے۔ احناف میں ایسی سزائے قتل کو سیاستاً سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ [یعنی ایک تو وہ سزاے قتل جو شرعاً مقرر ہے او ردوسری جو شرعی مصلحت کی بنا پر دی جائے ،وہ ’سزاے قتل سیاستاً ‘کہلائے گی]
حاصل بحث یہ ہے کہ قاضی کو یہ حق حاصل ہے کہ تکرار سے ہونے والے جرائم کی شدت کی بنا پر ان میں قتل کی سزاجاری کرے۔ اسی بنا پر بہت سے احناف نے ایسے بہت سے شاتمان رسول کے قتل کا فتویٰ دیا ہے جو ذمی ہونے کے باوجود تکرار سے اس فعل شنیع کا ارتکاب کرتے تھے، باوجود اس امر کے کہ مجرم ذمی پکڑے جانے کے بعد توبہ کرکے اسلام بھی لے آئے۔او رحنفیہ نے کہا کہ ایسے شاتمان کو سیاستاً [مصلحت ِشرعی کی بنا پر]قتل کیا جائے گا۔اور یہ موقف ان کے اصول سے ثابت شدہ ہے۔ اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے[حنفیہ] کے ہاں بھی شاتم ذمی کا قتل کرنا جائز ہے، جب وہ تکرار کا مرتکب ہو او رکھلم کھلا یہ جرم کرے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ اگر چہ ایسا ذمی پکڑے جانے کے بعد اسلام بھی لے آئے [تب بھی اس کو قتل کیا جائے گا] تو مجھے علم نہیں کہ حنفیہ میں سے کسی نے اس کی صراحت بھی کی ہے یا نہیں ؟ تاہم جب امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حنفیہ کے بارے میں یہ بات جو بتا رہے ہیں توایک معتبر شخصیت ہونے کے ناطے ان کی بات کا اعتبار کیا جانا چاہئے۔‘‘
مذکورہ بالا طویل اقتباس سے معلوم ہوا کہ
٭ توہین رسالت کے ارتکاب کی صورت میں ذمی کو تعزیری سزا دی جائے گی۔
[1] ردّ المحتار على الدر المختار: 4 /233