کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 66
موقف امام طحاوی رحمہ اللہ نے ثوری رحمہ اللہ سے بھی نقل کیا ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کی دشنام طرازی پر علمائے اُمت اور احناف میں کوئی فرق نہیں ہے کہ اس کی سزا قتل ہے۔تاہم بعض احناف کا یہ موقف فقط ایسے ذمی لوگوں کے بارے میں ہے جو دارالاسلام میں رہتے ہوں کہ اگر وہ شتم رسول کریں گے تو ان کی معاہدہ اور امان نامہ نہیں ٹوٹے گا، لیکن اُنہیں اس جرم کی سزا ضرور دی جائے گی جو لازمی نہیں کہ قتل ہی ہو، جیسا کہ تفصیل آگے آرہی ہے۔پتہ چلا کہ احناف کا یہ موقف ایسے ذمی لوگوں کے بارے میں جو دارالاسلام میں رہ کر ذمی کے فرائض یعنی جزیہ بھی ادا کرتے ہوں ۔ احناف کے اس موقف سے اگر یہ ثابت شدہ ہو تو پاکستان کی موجودہ صورتحال میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کیونکہ پاکستان کے غیرمسلم نہ تو ذمی ہیں اور ہی ذمی کی حیثیت کو قبول کرکے جزیہ وغیرہ ادا کرتے ہیں بلکہ یہ تو برابر کے شہری ہونے کے داعی ہیں ۔ دراصل پاکستان خالص طورپر اسلامی مفہوم میں دارالاسلام نہیں بلکہ ایک وطنی ریاست ہے جس میں رہنے والے ایک باہمی متفقہ دستور کی بنا پر اپنے حقوق کا تعین کرتے ہیں ۔ان حالات میں ایک ایسی ریاست میں ذمی کا مسئلہ ڈال کر معاملہ کو اُلجھانا مغرب زدہ دانشوروں کا وطیرہ ہی ہوسکتا ہے۔
دوسری طرف حنفیہ کے نامور فقیہ علامہ محمد امین عرف قاضی ابن عابدین رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس اقتباس کو بیان کرکے اس کی وضاحت یوں کی ہے :
ومن أصولهم: يعني الحنفية أن ما لا قتل فيه عندهم مثل القتل بالمثقل والجماع في غير القبل، إذا تكرر فللامام أن يقتل فاعله، وكذلك له أن يزيد على الحد المقدر إذا رأى المصلحة في ذلك، ويحملون ما جاء عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابه من القتل في مثل هذه الجرائم، على أنه رأى المصلحة فذلك ويسمونه القتل سياسة.
وكان حاصله: أن له أن يعزر بالقتل في الجرائم التي تعظمت بالتكرار، وشرع القتل في جنسها، ولهذا أفتى أكثرهم بقتل من أكثر من سب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أهل الذمة وإن أسلم بعد أخذه، وقالوا يقتل سياسة، وهذا متوجه على أصولهم اهـ . فقد أفاد أنه يجوز عندنا قتله إذا تكرر منه ذلك وأظهره.
وقوله: وإن أسلم بعد أخذه، لم أر من صرح به عندنا، لكنه نقله