کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 65
کے قتل ہے اور ا س کی توبہ ناقابل قبول ہے۔ یاد ر ہے کہ احناف کے ہاں اسی قول کا اعتبا رکیا جاتا ہے جس پر ان کے ہاں فتویٰ دیاجاتا ہو اور پاکستان کے علماے احناف کا فتویٰ بھی وہی ہے جو پوری ملت ِاسلامیہ کا ہے، جیسا کہ اس سلسلے میں پاکستان کے علماے احناف نے اپنا موقف پیش کردیا ہے کہ امام ابو حنیفہ اور بعض علما احناف کی طرف اس قول کی نسبت درست نہیں !
3 اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف اس قول کی نسبت کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو ان کا موقف کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے او راس سے موجودہ صورتحال میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔فقہی انسائیکلوپیڈیا میں ہے:
والسّابّ إن كان مسلما فإنّه يكفر ويقتل بغير خلاف، وهو مذهب الأئمّة الأربعة وغيرهم، وإن كان ذمّيّا فإنّه يقتل عند الجمهور ، وقال الحنفيّة : لا يقتل، ولكن يعزّر على إظهار ذلك [1]
’’اگر دشنام طرازی کرنے والا مسلمان ہو تو وہ کافر ہوجائے گا، اور بلا اختلاف اس کی سزا قتل ہے۔یہی ائمہ اربعہ وغیرہ کا متفقہ موقف ہے۔ تاہم اگر وہ ذمی ہے تو جمہور کے ہاں اس کی سزابھی قتل ہے، لیکن حنفیہ کا موقف ہے کہ اس کو لازما ً قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس جرم کے اظہار پر اس کو تعزیری سزا دی جائے گی۔‘‘
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بعض حنفی علما کا موقف ان الفاظ میں درج کیا ہے:
وأما أبو حنيفة وأصحابه فقالوا: لا ينتقض العهد بالسبّ، ولا يقتل الذمي بذلك، لكن يعزر على إظهار ذلك كما يعزر على إظهار المنكرات التي ليس لهم فعلها من إظهار أصواتهم بكتابهم ونحو ذلك، وحكاه الطحاوي عن الثوري [2]
’’امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگردوں کا کہنا یہ ہے کہ ذمی کا عہد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے سے ٹوٹتا نہیں ہے اور اس بنا پر ذمی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ تاہم اس کی سزااس کو دی جائے گی جس طرح دیگر منکرات وغیرہ کی سزا اُنہیں دی جاتی ہے، جن میں سے ان کا اپنی کتب کو بلند آواز سے پڑھنا وغیرہ بھی شامل ہیں ۔ اور یہی
[1] الموسوعة الفقهية الكويتية ج 2 / ص 4883
[2] الصارم المسلول: 1/17