کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 64
دلائل ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں ۔
ٹی وی کے مباحثوں میں جاوید احمد غامدی عام یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ’’اے مسلمانانِ پاکستان! آپ اس سلسلے میں میری نہ مانیں ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ہی تسلیم کرلیں جو شاتم رسول کی سزا قتل قرار نہیں دیتے۔‘‘ غامدی صاحب کے ادارے ’المورد‘ کے سکالرزنے ایسے تمام اقتباسات کو بڑی جستجو کے بعد جمع کرکےمختلف ذرائع کے ذریعے پھیلانے کی بھی کوشش کی ہے۔ ان کے پیش کردہ موقف میں بہت سے مغالطے دیے جاتے ہیں :
1 اوّل تو یہ ملت ِاسلامیہ کا اجماعی موقف ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے اور اس میں حنفی علما کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جیسا کہ ابن المنذر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
أجمع عوام أهل العلم علی أن حدّ من سبّ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم القتل [1]
’’اہل علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتاہے ، اس کی سزا قتل ہے ۔‘‘
2 یہی حنفیہ کے معتبر فقہا کا بھی موقف ہے جیساکہ ابن ہمام رحمہ اللہ حنفی لکھتے ہیں :
کل من أبغض رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم بقلبه کان مرتدًا، فالساب بطریق أولیٰ ، ثم یقتل حدًا عندنا فلا تقبل توبته في إسقاطه القتل [2]
’’جس شخص نے بھی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی طور پر بغض رکھا، وہ مرتد ہوجاتاہے ، تو گالی دینےوالا تو بالاولیٰ مرتد ہوگا ۔ اور پھر ایسا شخص ہمارے نزدیک بطورِ حد قتل کیا جائے گا اور قتل کے بارے میں اس کی کوئی توبہ قبول نہیں ہوگی ۔ ‘‘
اور قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
وأیما مسلم سبّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو کذبه أو عابه أو تنقصه فقد کفر باللّٰہ وبانت منه امرأته [3]
’’ جس مسلمان نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی ، آپ کی تکذیب یا توہین کی تو وہ کافر ہوگیا ، اس کی عورت اس سے جدا ہوجائے گی ۔‘‘
جیسا کہ اوپر دو معتبر حنفی علما کا قول ذکر ہوچکا ہے کہ شاتم رسول کی سزا بطورِ شرعی حد
[1] موسوعة الدفاع عن رسول اللّٰہ ﷺ: ج1/ص12
[2] فتح القدیر بحواله البحر الرائق شرح كنز الدقائق ج 13/ ص 495
[3] کتاب الخراج بحواله حاشية رد المحتار ج 4 /ص 419