کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 63
آباد کا امریکی کیمپ، ان دونوں مقامات پر ہونے والے جرائم کا تعین اور ان کی سزا کا فیصلہ امریکی عدالتیں کریں گی، چاہے مجرموں کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔نیشنل ریاستوں کے اس مسلمہ تصور کے بعد یہ ایک قانونی مذاق ہے کہ کہا جائے کہ آسیہ مسیح پر پاکستانی قانون کے مطابق کیوں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے اور اسے توہین رسالت کی سزا کیوں دی جاسکتی ہے؟
٭ یورپی ممالک سیکولر ریاستیں ہیں ، جو اپنے ہاں دیگر مذاہب کی آزادی کے نظریے کے داعی اور محافظ ہیں ۔ یہ ممالک مذہبی جبر کے شدید ناقد ہیں ۔اس کے باوجود فرانس ، بلجیم اور اٹلی میں پہلے حجاب وسکارف اور چھ ماہ قبل چہرے پر نقاب کے حوالے سے قانون پاس ہوا ہے جس کی رو سے فرانس میں چہرے پر نقاب ڈالنے والی عورت کو 725یورو جرمانہ[1]او رقید کی سزا دی جائے گی۔فرانس ، سیکولرزم کا چیمپئن ملک اور مذہبی تحفظ کا داعی، اپنے ہاں مسلم خواتین پر اپنا غیراسلامی قانون نافذ کرنے میں کوئی جھجک نہیں رکھتا۔ دوسری طرف پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، اور یہ ملک دستوری طورپر سیکولر ہونے کی بجائے اسلام کے فروغ اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے بنایا گیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے لادین دانشوروں کو یہاں غیرمسلموں پر تو اسلام کا نفاذ چبھتا ہے، لیکن یورپ کے سیکولر ملک میں مسلمان خواتین پر یہ مذہبی جبر دکھائی بھی نہیں دیتا !!
شاتم رسو ل اورحنفی فقہا رحمہ اللہ کا موقف؟
شاتم رسول کی سزا ایک مسلمہ شرعی تقاضا ہے۔ اس کے منکرین کو تو قرآنِ کریم اور احادیث ِمبارکہ کی صریح نصوص کی کوئی فکر نہیں ، لیکن ہمارے بعض ایسے بزعم خویش اسلامی دانشور بھی ہیں جو اس سلسلے میں مسلمانوں میں باہمی اختلاف کا شوشہ پیدا کرکے مطلب براری کرنا چاہتے ہیں ۔ ایسے مفکرین حنفی فقہ کا حوالہ کس منہ سے دیتے ہیں حالانکہ کسی مسئلہ کے اجماعی طورپر اُمت اسلامیہ کا موقف ہونے اور قرآن وحدیث میں اس کا غیرمتزلزل اثبات موجود ہونے کے باوجود یہ مفکرین اس کودرخورِ اعتنا نہیں جانتے، جیساکہ ماضی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔تاہم اہل مغرب سے اس کی کوئی تائید مل جائے یا ان کے مفادات پر کوئی حرف گیری کرنے لگے تو تب ایسے دانشور اسلام سے اس کے خلاف
[1] تفصیلات : ’یورپ میں حجاب ونقاب کے خلاف مہم‘ از راقم (ماہنامہ ’محدث‘: اپریل 2010ء)