کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 62
از خود صرف سزاے موت رہ جائے گی۔ بینظیر بھٹو نے اس وقت اپنا مراسلہ لکھ کر، سزاے قید کو برقرار رکھنے کی حمایت کی تھی۔یہ ہے بینظیر بھٹو کی حمایت کی وہ حقیقت جس کا ڈھنڈورا آج پیپلز پارٹی کے عہدیداران بشمول وزیر اعظم پاکستان پیٹتے پھرتے ہیں ۔ ٭ جہاں تک نواز حکومت کی 1992ء میں اسمبلی سے منظوری او رتائید کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں مجاہدِ ناموس رسالت محمد اسمٰعیل قریشی بتاتے ہیں کہ نواز شریف کو ان کے والد محترم میاں محمد شریف سے ملاقات کرکے، اس قانون کی حمایت پر نہ صرف آمادہ کیا گیا تھا، بلکہ ان کے والدصاحب نے اس قانون کے خلاف اپیل پر اُنہیں ڈانٹ پلائی تھی۔ بعد میں جب یہ پدرانہ دباؤ نہ رہا تو اسی نواز حکومت نے 1998ء میں اس قانون کے قابل عمل ہونے کے راستے میں سنگین رکاوٹیں کھڑی کردیں جس کی تفصیل میرے سابقہ مضمون میں گزر چکی ہے۔یہ نواز حکومت ہی تھی جس نے 1994ء میں سلامت اور رحمت مسیح کو چندگھنٹوں میں جرمنی کے سفر پر روانہ کردیا تھا۔ ان واقعاتی وضاحتوں اور حقائق کی درستگی سے قطع نظربہرحال توہین رسالت پاکستان کا منظور شدہ قانون ہے جو بلاامتیاز نہ صرف پاکستان کے تمام شہریوں بلکہ پاکستان میں آنے والے مسافروں اور زائرین پر بھی عائد ہوتا ہے، جیساکہ لاہور میں دوہرے قتل کے امریکی مجرم ریمونڈ ڈیوس کا فیصلہ بھی پاکستانی قانون کی روشنی میں کیا جائے گا۔ اس میں مذہبی حوالے کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، یہ پاکستان کا پبلک لاء ہے جو پاکستان کی دھرتی پر نافذ ہے۔ ٭ جس طرح پاکستانی تارکین وطن پر جرمنی یا امریکہ کا قانون ان ممالک میں رہتے ہوئے نافذ ہوتاہے ، اسی طرح پاکستان کا قانونِ دہشت گردی پاکستان میں قیام پذیر لیکن دنیا بھر کے شہریوں پر نافذ ہوتا ہے۔ یادش بخیر، ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر افغانستان کی بگرام ائیربیس میں ہونے والے ایک واقعہ کا مقدمہ امریکی عدالت میں کیوں چلایا جارہا ہے؟ جبکہ عافیہ صدیقی پر ایک پاکستانی شہری ہونے کے ناطے یاتو پاکستان میں پاکستانی قانون او رعدلیہ کے تحت کیس چلنا چاہئے یا افغانستان میں وقوعہ ہونے کی بنا پر افغانستان میں کیس چلنا چاہئے۔ امریکہ جہاں بھی اپنی افواج بھیجتا ہے، وہاں اپنے فوجی کیمپ بناتا ہے، جن کے بارے میں مقامی حکومت سے وہ معاہدہ کرتا ہے کہ وہاں امریکہ کا قانون نافذ ہوگا اور امریکی عدالتیں ہی اس کا فیصلہ کریں گی۔ اس بنا پر افغانستان کا بگرام ائیربیس ہو یا پاکستان کا جیکب