کتاب: محدث شمارہ 344 - صفحہ 61
ہیں ، اس قابل ہیں کہ اُنہیں قوت سے کنٹرول کرکےمسلمہ تہذیب وآداب کا مقید بنایا جائے ۔ (2) جدید قانون کی رو سے: نیشنل [وطنی] ریاست کے نقطہ نظر سے جس پر اس وقت دنیا بھر کی تمام ریاستیں قائم ہوئیں اور کاربند ہیں ، یہ مسئلہ تو بڑا ہی سادہ ہے کہ کیا توہین رسالت کا پاکستانی قانون پاکستان کے غیرمسلم شہریوں پر لاگو کیا جائے گا؟ توہین رسالت کا قانون پاکستان کا ’لاء آف لینڈ‘ ہے جس کے قانونی ہونے کے تمام سیاسی مطالبے مثلاً پارلیمنٹ کی توثیق ومنظوری اور عدالتی تقاضے بخیر وخوبی پورے کئے گئے ہیں ۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ یہ قانون آخر کار 1992ء میں پاکستانی پارلیمنٹ کی منظوری کی بنا پر نافذ العمل ہے، کیونکہ جہاں تک وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا تعلق ہے جس میں 30/اکتوبر 1991ء کی تاریخ دی گئی تھی، اس میں سزائے قید کے خاتمے کے ساتھ اس سزاے موت کو تمام انبیا کی توہین تک وسیع کرنے کی بات بھی کی گئی تھی۔ لیکن جب قومی اسمبلی اور سینٹ میں یہ معاملہ دوبارہ 1992ء میں پیش ہوا تو تمام انبیا کی توہین پر سزاے موت کی شق کو ختم کردیا گیا اور آج پاکستان میں یہی قانون نافذ ہے جو تمام تر ارتقاکے بعد آخرکار پارلیمنٹ کی طرف سے اسی صورت میں منظور ہوا ہے کہ اس میں صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین وگستاخی پر سزاے موت کی سزا کا تعین کیا گیا ہے۔ ٭ یہاں موضوع سے قطع نظر ایک اور وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ 1992ء میں بینظیر بھٹو کا اس قانون کےبارے میں کردار کیا تھا؟ جیسا کہ راقم اپنے سابقہ مضمون میں واضح کرچکا ہے کہ بینظیر اس قانون کی سخت مخالف تھیں اور اسے پاکستان کے لئے بدنامی کا سبب قرار دیتی تھی، ان کا تفصیلی بیان اور ردّ عمل اُس مضمون میں مذکور ہے۔ موجودہ پاکستانی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب ’چاہ ِیوسف سے صدا‘میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ بینظیر بھٹو بھی اس قانون کی مؤید تھیں ، حالانکہ یہ بات تاریخی طورپر حقائق کے منافی ہے۔ بینظیر بھٹو نے اس اپنے مراسلے میں دراصل اس موقف کی حمایت کی تھی جو 1986ء میں ضیا حکومت کے وزیر قانون اقبال احمد خاں کا تھا اور جس کی مخالفت وفاقی شرعی عدالت نے اپنی ڈیڈ لائن 30/اکتوبر1991ء کے ذریعے کی۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ قرار دیا کہ اگر حکومت نے قانون توہین رسالت کی سزا سے سزاے قید کا خاتمہ نہ کیا تو 30/اکتوبر 1991ء تک یہ سزا ے قید ختم ہوکر